بہار اسمبلی انتخاب: سمبل کی واپسی اور امیدوار کی تبدیلی فتح یقینی بنانے کے لیے مہاگٹھ بندھن کی بڑی حکمت عملی کا حصہ!

امیدواروں سے ٹکٹ واپسی اور آخری لمحہ میں درجن بھر اسمبلی حلقوں میں نئے امیدواروں کو کھڑا کرنے کے پیچھے مہاگٹھ بندھن کے تجربہ کار اور بزرگ رہنما آر جے ڈی صدر لالو پرساد یادو کی حکمت عملی کار فرما رہی۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;<a href="https://x.com/yadavtejashwi">@yadavtejashwi</a></p></div>
i
user

عتیق الرحمٰن

’بہار اسمبلی انتخاب 2025‘ میں تبدیلیٔ اقتدار کے عوامی رجحانات کی قدر کرتے ہوئے حزب مخالف مہاگٹھ بندھن نے جامع حکمت عملی تیار کی ہے۔ اس کے تحت تقریباً ایک درجن اسمبلی حلقوں میں بالکل آخری مرحلہ میں سمبل کی واپسی اور امیدواروں کی تبدیلی کر کے انتخابی سیاست کا رخ اچانک موڑ دیا گیا۔ اس قدم سے فی الوقت مہاگٹھ بندھن میں کہیں مایوسی اور کہیں حیرانی پیدا ہو گئی، جبکہ برسراقتدار این ڈی اے کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ وہ یہ سوچنے پرمجبور ہو گیا کہ بالکل آخری لمحہ میں اپنے امیدواروں سے سمبل واپس لینے اور امیدوار بدل دینے کے پیچھے مہاگٹھ بندھن کی کہیں نہ کہیں کوئی بڑی چال ہے۔ این ڈی اے نے اس اچانک تبدیلی کو نہ صرف حیران کن تصور کیا بلکہ اسے اپنے لیے ایک سخت چیلنج کے طور پر بھی قبول کیا۔ اس نے یہ محسوس کیا کہ مہاگٹھ بندھن اس بار ہر قیمت پر بہار کے اقتدار سے این ڈی اے کو اکھاڑ پھینکے گا اور یہ نئے جوش و امنگ پر بالکل نئی پالیسیوں کے ساتھ ایک مضبوط حکومت تشکیل دے گا۔

باوثوق ذرائع کے مطابق امیدواروں سے ٹکٹ واپسی اور آخری لمحہ میں درجن بھر اسمبلی حلقوں میں نئے امیدواروں کو کھڑا کیے جانے کے پیچھے مہاگٹھ بندھن کے تجربہ کار اور بزرگ رہنما آر جے ڈی صدر لالو پرساد یادو کی حکمت عملی کار فرما رہی۔ انہوں نے امیدواروں کی فہرست جاری کیے بغیر اور ان کے ناموں کا اعلان کرنے سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے اندر ہی اندر این ڈی اے کے ممکنہ امیدواروں کا پتہ لگوایا۔ اس کے بعد اپنے طویل سیاسی تجربات کی روشنی میں کچھ مخصوص حلقوں میں این ڈی اے امیدواروں کی شکست کو یقینی بنانے کے بڑے مقصد کے تحت مہاگٹھ بندھن کی جانب سے بہت ہی مضبوط و مناسب امیدوار کو سامنے لا کھڑا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پرچہ نامزدگی داخل کیے جانے کے بالکل آخری مرحلہ، بلکہ چند گھنٹہ قبل کئی امیدواروں سے سمبل واپس لیے گئے اور ان  کے بدلے اپنے مضبوط امیدوار کو کھڑا کر کے این ڈی اے کے سامنے سخت چیلنج پیش کر دیا۔ جالے، سپول، بارہ چٹی، لال گنج، گورابورام، کہلگاؤں، بابو بڑھی، سکندرا، راجہ پاکڑ اور چین پور سمیت ایک درجن سے زائد سیٹوں پر بالکل آخری وقت میں ٹکٹ واپسی اور امیدوار تبدیلی کر کے مہاگٹھ بندھن نے برسراقتدار این ڈی اے کو اسمبلی انتخاب میں ناکو چنے چبوانے پر مجبور کردیا ہے۔


دربھنگہ کے جالے اسمبلی حلقہ سے کانگریس نے نوجوان کارکن محمد نوشاد کو ٹکٹ دے کر واپس لے لیا، اور آر جے ڈی ترجمان و سابق رکن اسمبلی رشی مشرا کو اپنی پارٹی میں شامل کرا کر انہیں انتخابی میدان میں اتار دیا۔ اس کے سبب مسلسل تیسری بار فتح اور ہیٹ ٹرک کی کوششوں میں سرگرم بی جے پی امیدوار جیویش کمار مشرا کے لیے سخت چیلنج پیدا ہو گیا ہے۔ جیویش مشرا کو2015 میں 62059 ووٹ ملے تھے، جبکہ ان کے حلیف جے ڈی یو امیدوار رشی مشرا کو 57439 ووٹ ملے تھے۔ یعنی رشی مشرا نے انہیں سخت ٹکر دی تھی اور صرف 4620 ووٹوں سے جیویش مشرا کو فتح ملی تھی۔ 2020 میں جیویش کو 87376 ووٹ ملے تھے جبکہ مہاگٹھ بندھن حمایت یافتہ کانگریس امیدوار مشکور عثمانی کو 65580 ووٹ ملے تھے۔ اس طرح جیویش مشرا 21796 ووٹوں کے بڑے فرق سے کامیاب ہوئے۔ وہ دوسری بار نتیش کابینہ میں وزیر ہیں مگر مقامی اعلیٰ ذات کے ہندو ووٹرس ان سے بے حد ناراض چل رہے ہیں۔ ان کا سیدھا الزام ہے کہ جیویش مشرا کے ذریعہ پورے جالے حلقہ کو ترقی سے محروم کر دیا گیا اور عوام کے بنیادی مسائل کو یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ اس لیے ان کے مقابلے رشی مشرا کو اگر مہاگٹھ بندھن کے ذریعہ امیدوار بنایا جاتا ہے تو وہ انہیں ووٹ دیں گے۔ حلقہ میں مسلم ووٹروں کی تعداد تقریباً 31 فیصد ہے جو ہمیشہ آر جے ڈی اور کانگریس یا بایاں محاذ کی حمایت میں ہی ووٹ دیتے رہے ہیں۔ اس بار بھی مہاگٹھ بندھن کے حق میں ہی ان کا یکمشت ووٹ جانے کے حق میں ہے۔ جس کی وجہ سے جیویش مشرا کے مقابلے رشی مشرا کی پوزیشن بہت مضبوط نظر آرہی ہے۔

رشی مشرا 2014 کے ضمنی انتخاب میں جالے سے جے ڈی یو امیدوار کے طور پر رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ سابق وزیر ریل آنجہانی للت نارائن مشرا کے پوتے اور دربھنگہ سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ رہ چکے، جالے سے 1990 میں کانگریس کے رکن اسمبلی، 2000ء اور 2010 میں بی جے پی امیدوار کے طور پر جالے سے رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے وجے کمار مشرا کے صاحبزادے ہیں۔ کانگریس نے جب محمد نوشاد کو ٹکٹ دیا تھا تو حلقہ میں بڑے پیمانے پر مہاگٹھ بندھن کے ہندو ووٹرس میں ناراضگی پیدا ہو گئی تھی اور مسلم ووٹرس کے ذریعہ بھی ان کے خلاف بغاوت کا طوفان برپا کر دیا گیا تھا۔ حالات بگڑتے دیکھ اور تیجسوی کی بروقت مداخلت کے بعد کانگریس قیادت نے فوراً ڈیمج کنٹرول کرتے ہوئے نوشاد کو نامزدگی سے روک دیا اور ٹکٹ واپس لے کر رشی مشرا کو دے دیا، جس سے حالات معمول پر آگئے اور مہاگٹھ بندھن کے حق میں فضا ہموار ہو گئی۔ واضح ہو کہ راہل گاندھی کی ووٹر ادھیکار یاترا کے دوران جالے کے بٹھولی میں کانگریس کارکن محمد نوشاد کے اسٹیج سے شرپسند عناصر کے ذریعہ وزیر اعظم کی آنجہانی والدہ کے لیے توہین آمیز نعرے لگائے گئے تھے جس کے سبب بی جے پی کو مہاگٹھ بندھن کے خلاف ماحول تیار کرنے کا موقع مل گیا تھا۔


سپول میں کانگریس نے انوپم سے ٹکٹ واپس لے کر سرگرم نوجوان رہنما منت رحمانی کو بالکل آخری دن اپنا امیدوار بنایا۔ وہ 2020 میں بھی جے ڈی یو کے معمر رہنما وجندر پرساد یادو کو سخت ٹکر دے چکے ہیں اور بہار کانگریس اقلیتی شعبہ کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اسی طرح آر جے ڈی صدر لالو پرساد نے اپنی دور اندیشی اور غیر معمولی انتخابی حکمت عملی کا ثبوت دیتے ہوئے بارہ چٹی اسمبلی حلقہ سے سابق رکن اسمبلی سمتا دیوی سے 14 گھنٹے کے اندرٹکٹ واپس لے کر ان کی صاحبزادی تنو شری کو اپنا امیدوار بنا لیا، جس سے نئی نسل کے ہاتھوں میں قیادت سونپے جانے کا بڑا پیغام عوام کے درمیان پہنچا جو مہاگٹھ بندھن کے لیے مفید ثابت ہو رہا ہے۔ گورابورام میں آر جے ڈی نے اپنے امیدوار افضل علی خاں کی نامزدگی رد کرنے اور اتحادی جماعت وی آئی پی کے سنتوش سہنی کو گٹھ بندھن کا امیدوار قرار دینے کے لیے گزارش نامہ الیکشن دفتر کو سونپ دیا۔

مکامہ میں سابق امیدوار اشوک مہتو کی اہلیہ انیتا دیوی کی امیدواری خارج کر کے وارث علی گنج سے ٹکٹ دے دیا جبکہ مکامہ سے جے ڈی یو امیدوار اننت سنگھ کے خلاف آر ایل جے پی رہنما و سابق ایم پی سورج بھان سنگھ کو اپنی پارٹی میں شامل کر کے آر جے ڈی نے ان کی اہلیہ سابق ایم پی وینا دیوی کو امیدوار بنا دیا جس سے مکامہ جیسے سنگین حلقہ میں ’لوہے کو لوہا کاٹتا ہے‘ کے فارمولے پر مہاگٹھ بندھن نے عمل کیا۔ لال گنج میں کانگریس نے اپنے امیدوار آدتیہ کمار کی نامزدگی لالو کے دباؤ پر واپس لے لی جس سے آر جے ڈی امیدوار شیوانی شکلا کے لیے فتح کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔


واضح ہو کہ شیوانی شکلا کے والدین منا شکلا اور انو شکلا کئی مرتبہ لال گنج حلقہ کی نمائندگی بہار اسمبلی میں کر چکے ہیں اور ان دونوں کا بہت زیادہ اثر و رسوخ پورے حلقہ میں ہے۔ سکندرا میں سابق اسمبلی اسپیکر ادئے نارائن چودھری کی حمایت میں کانگریس نے اپنے امیدوار ونود چودھری کو بٹھا دیا۔ راجہ پاکڑ میں آر جے ڈی امیدوار موہت پاسوان کی امیدواری واپس کر کے کانگریس امیدوار پرتما داس کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔ چین پور میں آر جے ڈی امیدوار برج کشور بند کے حق میں کانگریس کے بال گوبند بند نے اپنی امیدواری واپس لے لی۔ کہلگاؤں میں کانگریس ریسرچ شعبہ کے سربراہ آنند مادھو کو پارٹی قیادت نے نامزدگی سے روک دیا اور پروین کشواہا کو ٹکٹ دے دیا۔ بابو بڑھی میں آر جے ڈی نے اپنے امیدوار ارون کشواہا کی امیدواری واپس کروا کر اتحادی پارٹی وی آئی پی کے بندو گلاب یادو کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔

اِدھر ایم آئی ایم چھوڑ کر آرجے ڈی میں شامل ہوئے 4 میں سے صرف ایک شاہنواز عالم ولد تسلیم الدین کو جوکی ہاٹ سے لالو نے اپنی پارٹی کا امیدوار بنایا ہے، مگر بقیہ تینوں اراکین اسمبلی سید رکن الدین، انظار نعیمی اور اظہار اسفی کی منفی شبیہ اور ان کے تعلق سے غلط رپورٹ کے سبب ٹکٹ سے محروم کر کے ان کے مقابلے متعلقہ حلقوں میں نئے اور مضبوط امیدوار دیے گئے ہیں۔