’بھارت جوڑو یاترا‘ سماج کو حقیقی معنوں میں سیکولر بنانے کی سمت میں اٹھایا گیا اہم قدم

راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی اہمیت اس طویل تاریخ میں ہے جب پارٹی اور اس کی تنظیم نہ صرف سیاسی طور پر سرگرم تھے بلکہ مشمولہ ریاستی نظام، برابری اور سماجی تبدیلی کو لے کر پرعزم رہے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>بھارت جوڑو یاترا</p></div>

بھارت جوڑو یاترا

user

سنجیو چندن

اتر پردیش کے شاہنواز عالم بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہوتے ہوئے کئی ریاستوں سے گزرے ہیں اور انھوں نے ایک خاص بات محسوس کی ہے۔ یوپی میں پارٹی کے اقلیتی سیل کے سربراہ شاہنواز یاد کرتے ہیں کہ جب یاترا مہاراشٹر میں تھی تو کنوینرس اور لوگوں، دونوں کا اس بات پر زور تھا کہ راہل گاندھی انّا بھاؤ ساٹھے، شیواجی مہارا، مہاتما پھولے، بابا صاحب امبیڈکر اور ان جیسے سماجی مصلحین کی یادگاروں کی یاترا کریں۔ اس کے برعکس کرناٹک میں گزارش یہ تھی کہ وہ مندروں میں جائیں۔

مہاراشٹر یقینی طور پر سماجی بدلاؤ کی زمین رہی ہے لیکن کئی دفعہ مصلحین کو کانگریس کے خلفا بھی جدوجہد کرنی پڑی۔ ویسے دیر سویر کانگریس نے ان کا استقبال تو کیا ہی، مصلحین کو اپنے ساتھ ملا بھی لیا۔ کئی کانگریس لیڈران اور کارکنان ریاست میں ان اصلاحی تحریکوں سے جڑے رہے۔ آزادی سے پہلے اور بعد میں بھی کانگریس سماجی بدلاؤ کے ہراول دستے میں رہی ہے۔ لیکن کیا پارٹی اس وراثت کو آگے بڑھانے کے لیے تیار اور خواہش مند ہے، یہ سوال ایسے لوگ لگاتار پوچھ رہے ہیں جنھیں یقین ہے کہ بھارت جوڑو یاترا وقت کی ضرورت ہے، لیکن جنھیں اس یاترا سے پارٹی کے انتخابی فائدے پر شبہ ہے۔


یاترا کے شروع میں جنوبی ریاستوں سے گزرتے ہوئے بھی راہل گاندھی نے کے. کامراج، تھرو-ولور، وویکانند، پیریار اور شری نارائن گرو کی یادگاروں کا دورہ کیا۔ راہل گاندھی جس کی نمائندگی کرتے ہیں، اس کانگریس نے کے. کامراج کو تمل ناڈو کا وزیر اعلیٰ اور کانگریس صدر بھی بنایا۔ کامراج تمل ناڈو کے انتہائی پسماندہ طبقہ ’نادر‘ کنبہ سے آتے تھے۔ کامراج نے جو فلاحی منصوبے شروع کیے، ان کا فائدہ ریاست کے غریبوں، دلتوں اور پسماندہ کنبوں کے بچوں کو تعلیم دلانے میں ملا۔ حاشیے کے طبقات کے لیے ان کے کام ریاست کے غیر کانگریس لیڈر بھی بے جھجک قبول کرتے اور یاد کرتے ہیں۔ سی پی آئی جنرل سکریٹری ڈی راجہ یاد کرتے ہیں کہ ’’اگر کامراج کی مڈ ڈے میل اسکیم نہ ہوتی تو میں کبھی پڑھ لکھ نہیں پاتا۔‘‘ ڈی راجہ اکثر کہتے ہیں کہ وہ بھوکے رہے ہیں اس لیے انھوں نے کبھی سیاسی یا علامتی ’بھوک ہڑتال‘ نہیں کی۔

کانگریس نے آزادی سے پہلے اور بعد میں سماج اور سیاست میں سلسلہ وار تبدیلی لانے میں کردار نبھائے۔ یہ طویل مدت سے کانگریس کی وراثت رہی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا کے حامی اور ناقد یکساں طریقے سے انتظار کر رہے ہیں کہ کیا یاترا اور یقینی طور پر راہل گاندھی خود اس وراثت پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں یا نہیں۔


یہ یاد کرنے والی بات ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعہ پیش ہندو کوڈ بل کو پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کانگریس کے اندر کی جنوب پنتھی طاقتوں اور باہری ہندو تنظیموں کے دباؤ میں پارلیمنٹ سے پاس کرانے میں ناکام رہے تھے۔ تب انھوں نے تین مختلف بل پیش کیے جسے پارلیمنٹ کی منظوری ملی۔ ڈاکٹر امبیڈکر کانگریس کے اندر تو پنڈت نہرو کے قریب تھے، لیکن ان کے ساتھ ان کی نااتفاقی تھی کیونکہ نہرو حکومت اور پارٹی کے لیڈر کے طور پر کامیابی اور ناکامی کے ذمہ دار تھے۔ یہ ان دونوں کے رشتوں کی تشریح کرتا ہے جسے کچھ مورخین گہری محبت اور نااتفاقی کی طرح دیکھتے ہیں۔ پھر بھی پنڈت نہرو اور ڈاکٹر امبیڈکر کو ایسے ہندوستان کی تعمیر میں ایک دوسرے کی صلاحیت پر پورا یقین تھا جس میں ہر شخص یکساں ہوگا۔

راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی اہمیت اس طویل تاریخ میں ہے جب پارٹی اور اس کی تنظیم نہ صرف سیاسی طور پر سرگرم تھے بلکہ مشمولہ ریاستی نظام، برابری اور سماجی تبدیلی کو لے کر پرعزم رہے تھے۔ اس لیے بھارت جوڑو یاترا کو سماجی بھائی چارہ لانے اور اسے مضبوط کرنے کی یاترا کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اسے عظیم بہوجن دلت لیڈروں اور مصلحین و ان کے نظریات کی وراثت کو زندہ کرنے اور ان پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے اضافی کوشش کے طور پر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ یہ سماج کو حقیقی معنوں میں سیکولر بنانے کی سمت میں اہم قدم ہوگا۔


میرے ساتھ بات چیت کے دوران شاہنواز عالم ایسے ایک دیگر نظریہ کے ساتھ آگے آئے جو عام بات چیت میں غیر فطری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مہاراشٹر اور دیگر مقامات پر آر ایس ایس نے شیواجی کی شبیہ مسلم حکمرانوں کے خلاف عظیم مذہبی جنگجو کی شکل میں بنا رکھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی یہی شبیہ مسلمانوں کے درمیان بنی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس شیواجی کا بہوجن اور دلت نظریہ انھیں سیکولر راجہ اور کسانوں کے لیڈر کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نہ صرف مہاتما پھولے نے شیواجی کو لے کر مشہور سوچ کو دور کرتے ہوئے 19ویں صدی میں لکھا بلکہ کٹر پسند ہندوؤں نے جن دلیل پسند نظریہ ساز نریندر دابھولکر کا قتل کر دیا، انھیں بھی شیواجی کو صحیح تاریخی منظرنامہ میں پیش کیا۔ شاہنواز کا کہنا ہے کہ اس نظریہ کو ایسے لوگوں اور خاص طور سے مسلمانوں کے درمیان پھیلانے کی ضرورت ہے جو شیواجی کو مسلم مکالف کے طور پر دیکھتے ہیں۔

بھارت جوڑو یاترا کو سماج کے جس ایک دیگر حاشیہ والے طبقہ نے مثبت طور پر دیکھا ہے، وہ خواتین ہیں۔ یاترا کے دوران سامنے آ رہی ایسی شبیہوں، جن میں راہل گاندھی خواتین کو گلے لگا رہے ہیں، مردوں کی زبردست بھیڑ کے درمیان بغیر سیکورٹی کے جذبہ سے خواتین پیدل چل رہی ہیں، مسافروں کو یہ کہتے سننا کہ انھوں نے ایک دوسرے سے کس طرح کھل کر اپنے نظریات ظاہر کیے، ان سب نے دوسری ریاستوں میں خواتین کے درمیان یاترا کو لے کر مثبت اثرات پیدا کیے ہیں۔ اس یاترا نے سیاست میں خواتین کے مقام کو یقینی طور پر مضبوط کیا ہے۔ یہ سیاست میں خواتین کی شراکت داری کا لینڈ مارک ہے جسے آزادی کی تحریک کے دوران پہلے مہاتما گاندھی نے حاصل کیا تھا۔ خواتین کے درمیان یاترا کی حصولیابیوں کو مضبوط کرنے کے لیے مزید قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔


یاترا کے آرگنائزرس اور منیجرس کو ایسے ہم عصر نظریہ سازوں، مصنفین اور مصلحین کے ساتھ راہل گاندھی کو جوڑنے کی ضرورت ہے جو بہوجن نظریات و اصولوں میں یقین کرتے ہیں۔ دلتوں اور دبے کچلے طبقات کے درمیان آر ایس ایس اپنے دور رس اور فرقہ وارانہ نظریات کے بیج کامیابی کے ساتھ بو چکا ہے، اس لیے ان طبقات کو اس زہر سے باہر نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ یاترا کی حصولیابیاں بے اثر ہو جائیں گی۔

بھارت جوڑو یاترا کا اثر ظاہری ہے۔ شمالی ہند میں اس کی آمد کے ساتھ ہی راہل گاندھی اور یاترا کی سَنگھ پریوار کے کئی اراکین نے تعریف کی ہے۔ یہ یاترا کو نقصان پہنچانے اور اس کے اثر کو کم کرنے کی اسٹریٹجی بھی ہو سکتی ہے۔ کانگریس کو اس سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔