ہوشیار! ماحول خراب کرنے کے لیے شرپسند ہیں تیار... سہیل انجم

یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو واقعات ہو رہے ہیں از خود ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سب ایک پلاننگ کا حصہ ہوں۔ ہندو لڑکیوں کی مسلم لڑکوں سے شادی بھی پلاننگ کا حصہ ہو سکتی ہے۔

علامتی تصویر (سوشل میڈیا)
علامتی تصویر (سوشل میڈیا)
user

سہیل انجم

جی تو چاہتا تھا کہ اس ہفتے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ پر اظہار خیال کیا جائے جو دہلی فساد سے متعلق ہے اور جس میں مرکزی حکومت کی پشت پناہی میں دہلی پولس کی مسلم دشمن ذہنیت اور اس کی متعصبانہ سوچ کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ دہلی فساد پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اس لیے اس سے گریز کرتے ہوئے ملک کو پیش آمدہ خطرات کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مذکورہ رپورٹ 28 اگست کو جاری کی گئی ہے۔ وہ انتہائی چشم کشا ہے۔ ہر انصاف پسند شخص کو اسے پڑھنا چاہیے اور مرکزی حکومت کو اس کی سفارشات پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔

یہ بات بتانے کی کوئی چنداں ضرورت نہیں کہ بہار میں اسی سال اور مغربی بنگال سمیت پانچ ریاستوں میں اگلے سال اپریل میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ مغربی بنگال کے علاوہ جہاں انتخابات ہونے والے ہیں وہ ہیں آسام، کیرالہ، تمل ناڈو اور پڈوچیری۔ بہار الیکشن کے لیے الیکشن کمیشن نے کورونا وائرس کے پیش نظر رہنما ہدایات جاری کر دی ہیں۔ سپریم کورٹ نے کورونا کے پیش نظر بہار الیکشن کو ملتوی کرنے کی عرضی خارج کر دی ہے اور کہا ہے کہ الیکشن طے شدہ وقت پر ہی ہوں گے۔ بہار میں بی جے پی، جنتا دل یو اور لوک جن شکتی پارٹی نے مل کر اور وزیر اعلی نتیش کمار کی قیادت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اپوزیشن یا نام نہاد عظیم اتحاد میں ابھی اختلاف کا دور چل رہا ہے۔ الیکشن آتے آتے اپوزیشن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کہا نہیں جا سکتا۔


مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی پارٹی ٹی ایم سی اور بی جے پی میں گھمسان کی لڑائی ہونے والی ہے۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر اس بار اسمبلی انتخابات جیتنے کی کوشش کرے گی۔ اس نے اس کے لیے بہت پہلے سے پلاننگ کر رکھی ہے۔ وہاں جو کچھ بھی کرنا پڑے بی جے پی کرے گی۔ وہاں کے گورنر جگدیپ دھنکڑ پہلے سے ہی فیصلہ کن لمحے میں بی جے پی کی طرفداری کے لیے موجود ہیں۔ ترنمول بھی اپنے طور پر اپنا قلعہ بچانے کے لیے جی توڑ کوشش کرے گی۔ اس کے لیے وہ ابھی سے ترنمول سے بی جے پی میں جانے والے کچھ اہم سیاست دانوں کی گھر واپسی کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔

آسام میں سی اے اے کی وجہ سے بی جے پی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہاں سی اے اے مخالف کئی سیاسی محاذ بن گئے ہیں جو اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو ناکوں چنے چبوانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر اپوزیشن نے موثر حکمت عملی وضع کی تو آسام میں اس بار بی جے پی کا جیتنا آسان نہیں ہوگا۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں اسے آسانی ہوتی ہے۔ وہ پوری سرکاری مشینری اپنی انتخابی تشہیر میں جھونک دیتی ہے۔ اور بی جے پی تو اس میں ماہر ہے۔ وہ ڈرا دھمکا کر اور دوسرے مختلف بہانوں سے بھی مخالفین کو خاموش کرنے کا گُر جانتی ہے اور سام دام دنڈ بھید ہر حربہ اختیار کرکے اپنا کام نکالنے میں مہارت رکھتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ ریاستوں میں اور اس دوران ہونے والے کچھ ضمنی انتخابات میں اسے کچھ بہت زیادہ رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

لیکن اس کے باوجود بی جے پی کے لیے سب سے بڑا سہارا فرقہ وارانہ ماحول ہے۔ اگر انتخابات کے دوران جذباتی ایشوز نہ اٹھائے جائیں اور عوام کو مذہب کی بنیاد پر نہ بانٹا جائے تو پھر بی جے پی کی راہ آسان نہیں ہوتی۔ بی جے پی ایک ایسی پارٹی ہے جو بہت دور سے چلتی ہے اور بہت پہلے سے ہی پلاننگ کرتی ہے۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ انتخابات کے پیش نظر بھی اس نے سماجی ماحول بگاڑنے کی پوری تیاری کر لی ہے۔ رفتہ رفتہ ایک ایک واقعات سامنے آتے جائیں گے اور بی جے پی ان واقعات کی بنیاد پر عوام کو ہندو مسلم کھیل میں الجھا کر اپنا کام نکال لے گی۔


ابھی پچھلے دنوں بنگلور میں ایک شخص نے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مجرمانہ ذہنیت کا ہے اور مسلم مخالف جذبات رکھتا ہے، ایک اہانت آمیز پوسٹ فیس بک پر اپ لوڈ کیا تھا جس کے نتیجے میں وہاں مسلمان سڑکوں پر آگئے، تشدد برپا ہو گیا اور پولیس فائرنگ میں تین افراد کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ اگر پولیس نے پہلے ہی اس شخص کے خلاف کارروائی کی ہوتی تو یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن مسلمانوں نے جذبات میں آکر پولیس تھانوں اور گاڑوں کو جو آگ لگائی وہ بھی غلط تھا اور ویسا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔

سدرشن چینل کے مالک سریش چوانکے نے یو پی ایس سی میں کامیاب ہونے والے مسلمانوں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے خلاف جو غلاظت پھیلائی ہے اور جس طرح مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا ہے وہ خود بہ خود نہیں ہو گیا۔ حالانکہ وہ پہلے بھی اس قسم کی خباثتیں پھیلاتا رہا ہے۔ لیکن اس بار ا س نے جو کچھ کیا وہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یو پی ایس سی جیسے انتہائی غیر جانبدار، صاف شفاف اور باوقار ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والا بھی ہے۔ اس شخص کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے اور وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور آر ایس ایس کے رہنماؤں کے ساتھ اس کی تصاویر ہیں اور ان سے اس کا تعلق ہے۔ لہٰذا سیاسی مشاہدین کا خیال ہے کہ ا س کا یہ پروگرام ماحول کو خراب کرنے کے مقصد سے تیار کیا گیا ہے۔ آگے بھی وہ اس قسم کے خطرناک پروگرام کر سکتا ہے۔ اگر چہ سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اس کے پروگرام پر اسٹے دینے سے انکار کیا تھا کہ بغیر نشر ہوئے کسی پروگرام پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ لیکن دہلی ہائی کورٹ نے اس پر اسٹے دے دیا۔


گوہاٹی میں ایک آسامی ٹی وی چینل ”رنگونی“ ہے۔ اس پر ایک سیریل دکھایا جا رہا ہے ”بیگم جان“۔ اس کے دو اہم کرداروں یعنی ہیرو اور ہیروئن مسلمان اور ہندو ہیں۔ لڑکی ہندو ہے اور لڑکا مسلمان ہے۔ دونوں میں دوستی ہے اور مسلم لڑکا ہندو لڑکی کی مدد کرتا ہے۔ لیکن یہ سیریل ہندوتو وادیوں سے ہضم نہیں ہوا۔ ہندو جاگرن منچ، آل آسام برہمن یوتھ کونسل اور یونائٹیڈ ٹرسٹ آف آسام نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور یہ کہتے ہوئے پولیس میںشکایت درج کرائی کہ اس سے ہمارے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔ اس شکایت پر آسام پولیس نے اس سیریل پر دو ماہ کے لیے پابندی عاید کر دی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مذکورہ ہندو لڑکی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک گھناونی مہم بھی چھیڑی گئی ہے اور اس کی شان میں نازیبا کلمات ادا کیے جا رہے ہیں اور اسے مختلف قسم کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

اب آئیے ٹیپ کے بند پر۔ یہ خبر اترپردیش سے ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک بار پھر لو جہاد کا نعرہ لگا دیا ہے۔ گزشتہ دنوں کانپور، میرٹھ اور لکھیم پور کھیری میں بعض ہندو لڑکیوں کی مسلم لڑکوں سے شادی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ان واقعات کے خلاف میرٹھ وغیرہ میں ہندوتو وادی تنظیموں نے مظاہرہ کیا ہے اور اسے لو جہاد کا نام دیا ہے۔ اس مظاہرے کے بعد یوگی جی منظر میں آتے ہیں اور محکمہ داخلہ کے سینئر افسران کو ہدایت دیتے ہیں کہ اس لو جہاد کو روکنے کے لیے جو بھی تیاری ہو سکے وہ کی جائے۔ حالانکہ شادی کرنے والی بعض لڑکیوں نے ویڈیو جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ وہ بالغ ہیں اور انھوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ لیکن ان شادیوں کو جبراً کرائی جانے والی شادی کہا جا رہا ہے اور اس کے خلاف پوری ریاست میں ایک ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جب ریاست کا مکھیا خود ایسی ہدایات دے گا تو حکام تو کارروائی کریں گے ہی اور مسلم دشمن قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی ہی۔ اب لو جہاد کے موضوع پر ایک بار پھر نیوز چینلوں پر ڈبیٹ ہونے لگی ہے اور امکان ہے کہ اس کا سلسلہ بڑھے گا اور چینل بھی اس فرقہ واریت کو ہمیشہ کی مانند ہوا دیں گے۔


اس لیے ہم نے کہا کہ پیش آمدہ خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ جو واقعات ہو رہے ہیں از خود ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سب ایک پلاننگ کا حصہ ہوں۔ ہندو لڑکیوں کی مسلم لڑکوں سے شادی بھی پلاننگ کا حصہ ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ معاملہ یہیں ختم ہو جائے بلکہ خطرہ اس بات کا ہے کہ جوں جوں انتخابات کے دن قریب آئیں گے ایسے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ لہٰذا عوام کو بہت زیادہ ہوشیار رہنے اور ایسے واقعات پر مشتعل نہ ہونے کی ضرورت ہے۔ شرپسند اور فسطائی قوتیں اس ملک کے ماحول کو ایک بار پھر بگاڑنے جا رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Aug 2020, 7:56 PM