’کل یوم عاشورا، کل ارض کربلا‘... نواب علی اختر

یزید کسی فرد کا نام نہیں ایک رویے کا نام ہے اور اسی طرح حسین ؑ کسی ایک فرد کا نہیں ایک مشن، ایک مقصد اور ایک نظریے کا نام ہے۔

تصویربشکریہ نیشنل ہیرالڈ 
تصویربشکریہ نیشنل ہیرالڈ
user

نواب علی اختر

آج پوری مسلم دنیا جس طرح کے یزیدی دور سے گذر رہی ہے وہ کربلا کا منظر پیش کر رہی ہے اس دور ظلمت سے نجات حاصل کرنے کی واحد راہ فکرحسین ؑ وکربلا اور ان کے جزبہ حریت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور امام حسین ؑ کے پاک واعلیٰ ترین مشن کی پیروی میں ہے۔

یوں تو ’کل یوم عاشورا۔ کل ارض کربلا‘ (ہر روز عاشورہ اور ہر زمین کربلا) ہے لیکن محرم ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ذکر شروع ہوتے ہی مظلوم کی حمایت اور ظلم سے نفرت کرنے والے ہر باشعور انسان کے دل و دماغ پر محسن انسانیت سید الشہداء حضرت امام حسین ؑ کی کربلا میں عظیم قربانی اور تاقیامت فتح و کامرانی نقش ہو جاتی ہے۔امام علیہ السلام نے اپنے بے مثال مجاہدانہ کردار کے ذریعے دنیا ئے جبر میں ہر خطہ زمین کو کربلا اور ہر دن کو یومِ عاشورہ بنا دیا۔ اب تا قیامت دو کردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہیں گے۔ ایک کردار یزیدی جو جبر و ظلم کی نمائندگی کرتا ہے اور دوسرا کردار حسینی ہے جو صبر اور ایثار کی مثال بنا ر ہے گا۔ ظاہر ہے اب ہر مسلمان خواہ کسی مسلک کا ہو،اپنے لیے حسینی کردار کا انتخاب کرے گا، یعنی جبر کے مقابلہ میں صبر،جفا کے مقابلے میں وفا، استکبار کے مقابلہ میں ایثار،طاقت کے مقابلہ میں استقامت اور مطلق العنانی کے مقابلہ میں جرات ایمانی کا مظاہرہ ہی دراصل اسوہ حسین ؑ اور درس کربلا ہے۔

امام حسین ؑ اور رسول پاکﷺ کے خانوادے کا صرف اسلام پر ہی نہیں پوری کائنات پر حشر تک کے لیے احسان ہے ورنہ غریب زندہ نہ رہتا اور ملوکیت ہر عہد میں اپنا خراج وصول کرتی رہتی۔ آج تک دنیاکے باطل نظاموں کے ترجمان اس دستور کو رائج کرنے اور اس کے فلسفے کو منوانے پر تلے ہوئے ہیں کہ طاقت ہی حق ہے مگر امامِ حسین ؑ نے اس روش کے خلاف چلتے ہوئے نعرہ انقلاب بلند کیا کہ طاقت حق نہیں دراصل حق طاقت ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ تلواروں کی جنگ جیتنے والے مقدر کی بازی ہار گئے اور بنجر زمین پر گھر کا گھر لٹا دینے والے انسانیت کی آبرو بن گئے۔ 10محرم 61 ھجری کو کربلا ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی تھی اور آج بھی ہر وقت کے یزید کو شکست دینے کے لئے حوصلہ ہمیں کربلا سے ہی ملتا ہے۔


کربلا جس نے حق و باطل کا معیار طے کر دیا اور جس نے بے زبان کو زبان دی،ظالم اور جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حوصلہ دیا۔ امام حسین نے یزید وقت کو بیعت کے سوال پر یہ جواب نہیں دیا تھا کہ میں حسین ؑ تجھ یزید کی بیعت نہیں کرتا بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ امام پاک ؑ کے الفاظ یہ تھے کہ مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔ اگر امام یہ کہتے کہ حسین ؑ یزید کی بیعت نہیں کرتا تو پھر یہ دو ذاتوں تک محدود رہتا لیکن انہوں نے جو الفاظ استعمال کئے وہ رہتی دنیا تک ایک مینارہ نور و رشدو ہدایت بن گئے اور تاریخ، سمت، وقت، سوچ، ذہن اور جذبات کو پوری طرح قبضے میں لے کر خود کو مقام امر پر فائز کرلیا اور چودہ صدیاں بیت گئیں مگر آپ کا نمایاں نام اور کردار نکھرتا چلا جاتا ہے اور وقت کی رفتار بتاتی ہے کی مستقبل میں مزید نکھرے گا۔

یزید کسی فرد کا نام نہیں ایک رویے کا نام ہے اور اسی طرح حسین ؑ کسی ایک فرد کا نہیں ایک مشن، ایک مقصد اور ایک نظریے کا نام ہے۔امام ؑنے یہ فقرہ کہہ کر رہتی دنیا تک کے لئے راہ متعین کر دی کہ فکر حسین ؑ کبھی بھی فکر یزید کے سامنے سر نگوں نہیں ہو گی۔ آج ہم اپنے چاروں طرف جو آگ اور خون کے سمندر دیکھ رہے ہیں اور مسلم امہ مجموعی طور پر جیسے تضحیک کا نشانہ بنی ہوئی ہے تو اس کی ایک وجہ تو قرآنی تعلیمات اور اسلام سے دوری ہے اور دوسری بڑی وجہ پیغام کربلا اور فکر حسین ؑ کو فراموش کرنا ہے۔ ہم روایات میں گم ہو چکے ہیں اور فکر ہماری معاشرت سے جیسے رخصت ہو چکی ہے اور علم سے جیسے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ آج پوری مسلم دنیا جس طرح کے یزیدی دور سے گذر رہی ہے وہ کربلا کا منظر پیش کررہی ہے اس دور ظلمت سے نجات حاصل کرنے کی واحد راہ فکرحسین ؑ وکربلا اور ان کے جزبہ حریت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور امام حسین علیہ السلام کے پاک واعلیٰ ترین مشن کی پیروی میں ہے۔


یہ دشت ’کربلا‘ کی آواز ہے جو کسی قوم اور مذہب سے مخصوص نہیں بلکہ ہر ایک کے دل کی آرزو ہے،ہر انسان کے پہلو میں دھڑکتے دل کی صدا ہے اور کیوں نہ ہو،کربلاایک ایسا مکتب فکر ہے جس کا آغاز بھی شکست باطل ہے اور انجام بھی باطل کی ہار۔کربلا کرہ خاکی پر کھنچے کسی ایک نقشے کا نام نہیں بلکہ پوری کائنات پر محیط ایک ایسی درسگاہ کا نام ہے جس کی پیمائش نہ جغرافیائی حدود کر سکتے ہیں نہ ملکی و لسانی ضوابط و قیود۔ہر مومن کا دل نینوا کے ساتھ دھڑک رہا ہے،ہر درد کے مارے انسان کا ترانہ غم جاں’کربلا ‘ ہے،ہر درد کے مارے انسان کی آواز’کربلا‘ ہے، ہر ستائے ہوئے انسان کا ورد زباں کربلا ہے۔ داستان حرم کی سادگی و رنگینی کربلا کے تصور کے بغیر سمجھ میں ہی نہیں آ سکتی۔

امام حسین ؑ نے ظلم کو اپنے لہو کے ذریعہ بے نقاب کرنے اور اقدار انسانی کے تحفظ کی خاطر انسانیت کو شعور ذات دینے کے لئے جو قربانی کربلا میں دی اس کا تسلسل آج بھی قائم ہے۔ جہاں بھی ظالم اور غاصب قوتیں انسانیت کو اپنے پنجے میں جکڑ کر اسے نابود کرنا چاہیں گی،کربلا کی صدائے بازگشت ضرور سنائی دے گی۔ اس لیے کہ کربلا ایک ایسی فکر کا نام ہے جو ہر خطے، جغرافیا، قوم و قبیلہ اور رنگ و نسل سے ماوراء ہو کر مظلوموں اور بے سہاروں کا سہارا بن کر ان کے پہلو میں دھڑک رہی ہے۔آج ہم خاموش رہیں یا بولیں لیکن کربلا کے تپتے ہوئے ریگزاروں سے ہر مظلوم کی حمایت کی آواز آج بھی آ رہی ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی کربلا کے خون آشام ذرات کوہاتھوں میں لے کر نچوڑا جائے تو شہداء کے مقدس خون کے قطرے یہی آواز دیں گے کہ ظلم جہاں بھی جس انداز سے بھی جس شکل میں بھی ہو ہم ظلم کے لیے دہکتے ہوئے انگارے ہیں،جن کی حرارت ہر ظلم اور ظالم و جابر کے لئے پیغام اجل ہے۔


ظلم کے خلاف اور انسانیت کی قدروں کو بچانے کے لیے جو آواز صحرائے کربلا میں بلند ہوئی تھی وہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسی زور و شور سے سنائی دے رہی ہے اور جب تک دنیا میں غلامی کے دیوتاوں کے چرنوں میں پھول چڑھائے جاتے رہیں گے،یہ آواز سنائی دیتی رہے گی، جب تک خواہشات کے طوق و سلاسل میں جکڑے قیدی حریت و آزادی کے پرچم دار بنے محکوم قوموں کا استحصال کرتے رہیں گے،جب تک غریبوں اور ناداروں کو ستایا جاتا رہے گا، جب تک حقداروں کو ان کے حق سے محروم کیا جاتا رہے گا تب تک یہ آواز سنائی دیتی رہے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Aug 2020, 5:56 PM