آرین خان کی گرفتاری: مہاراشٹر میں این سی بی بمقابلہ این سی پی... اعظم شہاب

آرین خان کی گرفتاری کے بعد مہاراشٹر میں این سی بی کی کارروائی مشکوک ہوگئی ہے اور این سی پی نے اس میں بی جے پی کی راست شمولیت کے ثبوت پیش کئے ہیں۔

آرین خان، تصویر آئی اے این ایس
آرین خان، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کو قتل ثابت کرنے میں جب سی بی آئی اپنا سرپٹک کر ناکام ہوگئی تو اسے منشیات کا زاویہ دیتے ہوئے سوشانت کی محبوبہ ریاچکرورتی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس سے قبل شاید ہی کوئی نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) کے بارے میں جانتا رہا ہوگا۔ ریا چکرورتی کی گرفتاری کے بعد میڈیا نے جس طرح مہینوں تک تل کا تاڑ بنایا اس سے ہرکوئی این سی بی سے واقف ہوگیا ہے کم ازکم مہاراشٹر کی حد تک تو سبھی اس ایجنسی کے بارے میں جاننے لگے ہیں۔ مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والی منشیات کی روک تھام کرنے والی اس ایجنسی کی کارروائی ریا چکروتی سے لے کر آرین خان تک پورے ملک میں بحث کا موضوع بن گئی ہے۔ کہا جانے لگا کہ یہ ایجنسی منشیات کے ریکیٹ کا پردہ فاش کر رہی ہے۔ یہ تصور یوں ہی قائم بھی رہتا اگر نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) نے اس ایجنسی کی مبینہ دھاندھلیوں کو بے نقاب نہ کیا ہوتا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ این سی پی کی جانب سے متواتر این سی بی کی کارروائیوں پر سوالیہ نشان لگایا جا رہا ہے اور این سی بی کے سربراہ سمیر وانکھیڈے ان کے جوابات دیتے دیتے پیسنے میں شرابور ہوئے جا رہے ہیں۔

ممبئی-گوا کروز پر چھاپے ماری کے بعد دو لوگوں کی ویڈیوز میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ایک ویڈیو میں ایک شخص آرین خان کو پکڑ کر این سی بی کے دفتر میں لے جا رہا ہے تو دوسری ویڈیو میں ایک دوسرا شخص ارباز مرچنٹ نامی نوجوان کو پکڑ کر لے جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ آرین خان کو پکڑ کر لے جاتے ہوئے شخص کی ایک سلیفی بھی وائرل ہوئی۔ جب اس پر اعتراض اٹھنے شروع ہوئے تو این سی بی کی جانب سے صفائی دی گئی کہ ان دونوں اشخاص کا این سی بی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ این سی بی کے اہلکار نہیں ہیں۔ اس چھاپے ماری یا گرفتاری کے بعد این سی پی کے قومی ترجمان نواب ملک نے ایک کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ آرین خان کو این سی بی دفتر میں لے جانے والا شخص کے پی گوسوامی ہے جبکہ ارباز کو پکڑ کر لے جانے والا منیش بھانو شالی ہے۔ کے پی گوسوامی کے بارے میں یہ بات سامنے آئی کہ اس پر دھوکہ دہی کے کئی مقدمات درج ہیں اور وہ پونے کی پولیس کو ایک کیس میں مطلوب بھی ہے۔ یہ شخص خود کو پولیس اہلکار بتاتا ہے اور ریوالور کے ساتھ اپنی تصویریں نکال کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہے۔


منیش بھانوشالی کے بارے میں جو معلومات این سی پی کے قومی ترجمان نے دی اس کے مطابق یہ شخص خود کو بی جے پی کا نائب صدر بتاتا ہے۔ اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نریندرمودی و امت شاہ کے ساتھ اس کی تصویریں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ کروز پر چھاپے ماری کے بعد این سی بی نے جو ضبطی دکھائی تھی وہ کروز کے بجائے این سی بی کے دفتر کی تھیں۔ جس کے بعد یہ سوال پیدا ہونا شروع ہوگیا کہ این سی بی کی یہ کارروائی فرضی تھی اور شاہ رخ خان کو نشانہ بنانے کے لئے رچی گئی تھی، نیز یہ کہ اس پوری کارروائی میں بی جے پی کسی نہ کسی طور شامل تھی۔ این سی پی کی جانب سے اس دعوے کے فوری بعد این سی بی کے ریجنل ڈائریکٹر سمیر وانکھیڈے نے میڈیا کے سامنے صفائی دی کہ یہ پوری کارروائی قانون کے مطابق ہوئی ہے اور یہ کہ جن لوگوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں وہ آزاد گواہ ہیں۔ جبکہ منیش بھانوشالی اور کے پی گوسوامی نے خود کو ایک مخبر بتایا۔

اس ضمن میں سب سے دلچسپ بات یہ رہی کہ این سی پی نے مرکزی ایجنسی این سی بی کی کارروائی پر سوالیہ نشان لگایا اور درد بی جے پی کے پیٹ میں ہوا۔ بی جے پی کی جانب سے اس پر نہایت تیزی سے ردعمل سامنے آیا اور کہا گیا کہ اس سے بی جے پی کاکوئی تعلق نہیں ہے۔ نواب ملک این سی بی کی کارروائی پر اس لئے سوال کر رہے ہیں کیونکہ ان کے داماد کو بھی این سی بی نے گرفتار کیا تھا اور اس کے قبضے سے دو سوکلو گانجا برآمد کیا تھا۔ لیکن چند روز بعد نواب ملک نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے این سی بی کے اس دعوے کی بھی قلعی اتار دی، کیونکہ اس میں انہوں نے اپنے داماد کی ضمانت پر رہائی کے عدالتی احکام کو میڈیا کے سامنے پیش کر دیا جس میں منشیات کی کوئی برآمدگی کے ثبوت کو عدالت نے تسلیم نہیں کیا تھا اور جو برآمد ہوا تھا وہ گانجے کے بجائے ہربل تمباکو تھا۔ نواب ملک نے اس ضبط شدہ شئی کی فارنسک رپورٹ بھی میڈیا کو دے دی جو عدالت میں پیش کی گئی تھی۔


نواب ملک نے این سی بی پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ کروز پر چھاپہ ماری کے دوران 11؍لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے دو لوگوں کو چھوڑ دیا گیا۔ جن دو لوگوں کو چھوڑا گیا ان میں سے ایک بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر کا سالا ہے۔ ممبئی میں بی جے پی کے ایک لیڈر ہیں جو پہلے منوج کمبوج کے نام سے جانے جاتے تھے لیکن جب مودی جی نے نیشن فرسٹ کی مہم شروع کی تو کمبوج صاحب نے اپنا نام تبدیل کرکے منوج بھارتیہ کرلیا ہے۔ کمبوج یا بھارتیہ صاحب کے سالے ریشبھ سچدیوا کے ساتھ پرتک گابھا نامی ایک شخص کو بھی این سی بی نے گرفتار کیا تھا جنہیں این سی بی کے دفتر میں لانے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ نواب ملک کی جانب سے اس معاملے میں جو انکشاف سامنے آئے حیران کن ہیں۔ ان کے مطابق سچدیوا اور گابھا نے ایک منصوبہ بند طریقے سے آرین خان کو کروز پر لانے کی کوشش کی تھی۔ آرین خان کے پاس سے کوئی نشہ آور شئے برآمد نہیں ہوئی تھی۔ یعنی کہ اسے قصداً پھنسانے کے لئے کروز پر لایا گیا تھا اور یہ کوشش سچدیوا اور گابھا نے کی تھی۔ اب ظاہر ہے کہ شکار کو بہلا پھسلا کر لانے والوں پر کیسے کارروائی ہوسکتی تھی؟

ابھی این سی بی کی کارروائی پر این سی پی کی جانب سے شکوک کا اظہار کیا ہی جا رہا تھا کہ محکمہ انکم ٹیکس نے این سی پی لیڈر اور ریاست کے نائب وزیراعلیٰ اجیت پوار کی بہنوں کے گھر پر چھاپہ ماری شروع کر دی۔ یہ چھاپہ ماری مسلسل پانچ دنوں تک جاری رہی اور اس کے بعد بھی محکمہ انکم ٹیکس کو کچھ نہیں ملا۔ این سی پی کی جانب سے اس چھاپے ماری کو خوفزدہ و پریشان کرنے کی ایک کوشش قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ چاہے جتنی چھاپے ماری کرلی جائے ہم خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں۔ دوسری جانب سے این سی پی کے سربراہ شردپوار نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے مرکزی حکومت کی جانب سے مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے غلط استعمال کا حوالہ دیا۔ انہوں نے نواب ملک کے ذریعے اٹھائے گئے سوالات کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف این سی بی ہی نہیں بلکہ آئی ٹی اور سی بی آئی کا بھی غلط استعمال ہو رہا ہے۔ جس کے جواب میں ریاست کے سابق وزیراعلیٰ دیوندر فڈنویس نے کہا کہ اگر ہم ایجنسیوں کا غلط استعمال کر رہے ہوتے تو ریاست کی پوری کابینہ جیل میں ہوتی۔


15؍اکتوبرکو شیوسینا کی جانب سے دسہرہ کے موقع پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام میں شیوسینا سربراہ اور ریاست کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے اپنے خطاب میں بی جے پی پر جم کر برسے اور ایجنسیوں کے غلط استعمال کا اعلانیہ حوالہ دیا۔ انہوں نے این سی بی کا نام لئے بغیر کہا کہ وہ چند گرام منشیات سونگھتی گھوم رہی ہے جبکہ ہماری پولیس نے سیکڑوں کروڑ روپئے کے منشیات ضبط کر رہی ہے۔ ادھوٹھاکرے نے گجرات کے مندرا بندرگاہ پر برآمد ہوئے تین ہزارکروڑ روپئے کے منشیات کا بھی ذکرکیا اور کہا کہ اس معاملے میں کارروائی کے بجائے اس ایجنسی کو یہاں چندگرام نشہ آور اشیاء کی کھوج میں لگایا گیا ہے۔ ادھوٹھاکرے کے اس بیان سے این سی پی کی جانب سے این سی بی پر عائد الزامات کی توثیق ہوگئی جس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ مرکزی ایجنسیوں کی جانب سے ریاست میں کی جانے والی کارروائیوں کے پسِ پشت بی جے پی کی انتقامی کارروائی کا عمل دخل ہے۔ اسی طرح کی کارروائیاں مغربی بنگال میں بھی چل رہی ہیں۔

دو روز قبل این سی پی کی جانب سے این سی بی کی ایک اور دھاندھلی کو بے نقاب کیا گیا۔ نواب ملک نے ٹوئٹر پر کچھ تصویریں شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فلیچرپٹیل نامی شخص جو این سی بی افسر سمیر وانکھیڈے کا فیملی فرینڈ ہے، اسے این سی بی کی ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین کارروائیوں میں گواہ بنایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس انکشاف کے بعد سے این سی بی بیک فٹ پر آگئی کیونکہ ایسا کرنا قانونی لحاظ سے بھی غلط ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام الزامات کے جواب میں ایجنسیوں کی جانب سے بی جے پی صفائی دیتی نظر آرہی ہے۔ دیوندر فڈنویس کے مطابق این سی بی منشیات کی روک تھام کے لئے کام کر رہی ہے، ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ جبکہ این سی پی کا کہنا ہے کہ این سی بی منشیات کی روک تھام نہیں بلکہ بی جے پی کے اشاروں پر کچھ چنندہ لوگوں کو، بالی ووڈ، ممبئی اور ریاستی حکومت کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہی ہے۔


دلچسپ بات یہ رہی کہ مرکزی ایجنسیوں کی اس کارروائی کو سیاسی انتقامی کارروائی خود بی جے پی کے ایک وزیر نے بتا دیا۔ موصوف کا نام ہرش وردھن پاٹل ہے جو گزشتہ اسمبلی انتخاب سے قبل کانگریس کے لیڈر تھے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی میں آنے کے بعد میں چین کی نیند سوتا ہوں کیونکہ مجھے کسی بھی کارروائی کا خوف نہیں ہے۔ یعنی انہوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارے یہاں کوئی چھاپے ماری نہیں ہوسکتی کیونکہ میں بی جے پی میں ہوں۔ اس تناظر میں اگر ریاست میں ایجنسیوں کی کارروائی پر نظرڈالی جائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بی جے پی کے اشاروں پر ہو رہی ہے۔ کیونکہ ریاست میں بی جے پی کے لیڈران کی زبان سے کسی کی تفتیش کا مطالبہ نکلتا نہیں ہے کہ ایجنسیوں کی چھاپے ماری شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے میں این سی پی سربراہ شردپوار کا یہ بیان معنی خیز ہوجاتا ہے کہ مغربی بنگال کی طرح بہت جلد مہاراشٹر سے بھی بی جے پی کا صفایا ہوجائے گا کیونکہ ریاست کے عوام یہ سب بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Oct 2021, 12:11 PM