پاک فوج کے نئے چیف اور ہند پاک تعلقات... سہیل انجم

پاکستان میں کم از کم ایک عشرے سے فوج براہ راست اقتدار پر قابض نہیں ہے لیکن طاقت کا توازن اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ملکی سیاست ہو یا خارجہ پالیسی سب میں اسی کا عمل دخل ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سہیل انجم

ہندوستان اور پاکستان کے باہمی رشتوں کی عجیب نوعیت ہے۔ دونوں ایک ہی ملک کا حصہ تھے۔ لیکن 1947 میں ہندوستان کی تقسیم ہو گئی اور پاکستان نام سے ایک نیا ملک عالم وجود میں آگیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں بڑے اور چھوٹے بھائی کی حیثیت سے رہتے لیکن دونوں کٹر دشمن بن گئے۔ تقسیم کے بعد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی دور اندیش قیادت نے ہندوستان کو ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک بنا لیکن پاکستان سیکولر جمہوری ملک نہیں بن سکا۔ حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو ایک سیکولر جمہوری ملک ہی بنانا چاہتے تھے۔ لیکن چونکہ ان کی زندگی کا چرغ جلد ہی گل ہو گیا اس لیے وہ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو گیا۔

وہاں سیکولرزم اور جمہوریت کے اصول پنپ نہیں پائے۔ فوج بیرکوں میں رہنے کے بجائے سیاسی ایوانوں میں داخل ہو گئی۔ لہٰذا یکے بعد دیگرے متعدد فوجی جنرلوں نے حکومت پر قبضہ کیا۔ جنرل ایوب خاں، جنرل یحییٰ خاں، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف۔ پاکستان کی زندگی کے کم و بیش نصف حصے پر انہی چاروں جنرلوں کا قبضہ رہا۔ وہاں سیاسی جماعتیں بھی رہی ہیں لیکن ان کو پھلنے پھولنے کے زیادہ مواقع نہیں ملے۔ اور جب ملے تو وہاں کی سیاسی جماعتوں کا کرپشن یہاں کی سیاسی جماعتوں سے کہیں آگے نکل گیا۔ اب تو یہاں کی سیاست بھی پاکستانی سیاست کے نقش قدم پر چلنے لگی ہے۔ یعنی جس طرح پاکستان میں سیاست میں مذہب کی بہت زیادہ آمیزش ہوئی اور جس کے نتیجے میں بڑی خرابیاں پیدا ہو گئیں اسی طرح اب یہاں کی سیاست کو بھی مذہب زدہ کر دیا گیا ہے۔


بہرحال پاکستان میں کم از کم ایک عشرے سے فوج براہ راست اقتدار پر قابض نہیں ہے لیکن طاقت کا توازن اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ملکی سیاست ہو یا خارجہ پالیسی سب میں اسی کا عمل دخل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فوج ہی عمران خان کو لے کر آئی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ عمران خان اپنے فیصلے خود کرنے لگے۔ انھوں نے خود کو امیرالمومنین کی حیثیت سے بھی پیش کرنے کی کوشش کی۔ کچھ دنوں تک فوج سے ان کے رشتے اچھے رہے اسی لیے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کی ملازمت کی تین سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد مزید تین سال کی توسیع دے دی گئی۔ لیکن پھر اختلافات شروع ہو گئے اور عمران خان نے الزام لگانا شروع کر دیا کہ فوج اور امریکہ ان کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح انھیں عدالتی بغاوت سے حکومت سے معزول کر دیا گیا۔ ان کی جگہ پر شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔

اس درمیان قمر جاوید باوجوہ کی مدت ملازمت مکمل ہو گئی اور نئے آرمی چیف کی تلاش شروع ہو گئی۔ عمران خان چاہتے تھے کہ نئے آرمی چیف کے تقرر میں ان کی رائے کو بھی اہمیت دی جائے۔ لیکن جب اس کا امکان نظر نہیں آیا تو انھوں نے اتفاق رائے سے تقرر کی خواہش ظاہر کی اور اس کی کوشش بھی کی۔ لیکن ان کی ایک نہیں چلی اور لندن میں خود جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے سابق وزیر اعظم اور موجودہ وزیر اعظم کے بڑے بھائی نواز شریف کا فیصلہ حاوی ہو گیا۔ اس طرح لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا گیا۔


عمران خان ان کے حق میں نہیں تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عاصم منیر پہلے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر جنرل رہے ہیں۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے عمران خان کے کان میں ایک ایسی بات کہی جو انھیں بہت ناگوار گزری۔ عمران خان کے وزیر اعظم رہتے ہوئے ان کی اہلیہ بشریٰ بیگم کے ہاتھوں میں بھی کافی طاقت آگئی تھی اور کہا جاتا ہے کہ ان کے قریبی دوستوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ بشریٰ بیگم کی ایک سہیلی پر بھی کرپشن کے الزامات لگے۔ عاصم منیر نے عمران خان کو بتایا کہ آپ کے خاندان کے توسط سے بدعنوانیوں کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہ بات انھیں پسند نہیں آئی اور اسی روز ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔

بہرحال اب انہی عاصم منیر کو پاکستانی فوج کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ عام طور پر پاکستان میں پیش آنے والے واقعات پر ہندوستان میں بھی نظر رکھی جاتی ہے اور یہ ضروری بھی ہے۔ اسی طرح یہاں کے حالات پر پاکستان نظر رکھتا ہے۔ لہٰذا نئے فوجی سربراہ کے تقرر کے عمل پر جتنی دلچسپی پاکستان میں لی جاتی رہی اتنی ہی ہندوستان میں بھی لی جاتی رہی۔ یہاں کے اخبارات بھی نظر رکھے ہوئے تھے اور نیوز چینل بھی۔ اب جبکہ عاصم منیر کو فوجی سربراہ بنا دیا گیا ہے تو اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ان کے دور میں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔ بعض اخبارات نے ایک ہی ایڈیشن میں کئی کئی مضامین شائع کیے ہیں اور عاصم منیر کے سابقہ ریکارڈ کا بھی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔


کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے اس سلسلے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے اور ایک علیحدہ نیوز آئٹم میں لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کی سابقہ خدمات کی تفصیل پیش کی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں فوجی سربراہ کی حیثیت سے عاصم منیر کا تقرر ہوا ہے جب پاکستان کو کمزور معیشت اور دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ ان کا تقرر فوج اور سابق وزیر ِاعظم عمران خان کے درمیان، جنہوں نے حکومت سے اپنی معزولی کے لیے امریکہ اور فوج کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، تنازعات کے درمیان ہوا۔

اخبار لکھتا ہے کہ فوج کو تاریخی طور پر پاکستان کی ملکی سیاست اور خارجہ پالیسیوں کے اہم محرک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لہٰذا جنرل عاصم منیر کے تقرر کا پاکستان کی کمزور جمہوریت، ہندوستان اور افغانستان کی حکومت اور چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات اور پالیسیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان اور امریکہ گہرے دوست ہوا کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ دونوں کے تعلقات میں سردمہری آگئی اور امریکہ کے ہندوستان سے تعلقات بہت خوشگوار ہو گئے۔ عمران خان کے اس الزام کے بعد کہ ان کی معزولی میں امریکہ کا بھی ہاتھ ہے دونوں کے رشتے اور خراب ہو گئے تھے۔ لیکن اب شہباز شریف اس رشتے کو ایک بار پھر پٹری پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اخبار نے عمران خان کا یہ بیان بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے کہ امریکہ دہشت گردی مخالف جنگ میں پاکستان کو ’کرائے کی بندوق‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔


ایک اور کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ پاکستان کے عوامی حلقوں میں ایسا احساس ہے کہ عمران اور فوج کے درمیان تنازع سے فوج کا وقار کم ہوا ہے اور سیاست میں فوج کی مداخلت سے مایوسی بھی بڑھ رہی ہے۔ اس پر گہری نظر رہے گی کہ کیا نئے آرمی چیف اس عدم اطمینان کو ختم کر سکیں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستانی معیشت میں استحکام لانے کے لیے ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے تھے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے جانشین اس موقف کو جاری رکھتے ہیں یا نہیں۔

انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ہندوستان کے تعلق سے جنرل باجوہ کا دور ملا جلا رہا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے ساتھ قیام امن کی نواز شریف کی کوششوں کو مسترد کر دیا تھا اور ان کے دور میں ہی سابق وزیر اعظم کو ’عدالتی بغاوت‘ کے توسط سے حکومت سے ہٹا دیا گیا۔ بعد کے برسوں میں جنرل باجوہ نے ہندوستان کے سامنے امن کا ہاتھ بڑھایا اور اس بات کا اشارہ دیا کہ پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ تجارت شروع کرنی چاہیے۔ انہی کے دور میں پاکستانی فوج نے ایل او سی پر 2003 کے سیز فائر کو سختی سے نافذ کرنے کا معاہدہ کیا۔

وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ کے دباؤ کی وجہ سے کراس بارڈر دہشت گردی میں کمی آئی ہے۔ لیکن اب جموں وکشمیر میں ڈرونز کے ذریعے ہتھیار اور منشیات گرائی جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ ڈونز کے ذریعے پنجاب میں بھی ہتھیاروں اور منشیات کے گرائے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عاصم منیر کے دور میں بھی کیا ایسا ہوتا ہے۔ اخبار کے مطابق جب 2019 میں جموں و کشمیر کے پلوامہ میں نیم مسلح دستے کے قافلے پر حملہ ہوا تھا تو عاصم منیر آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ ہندوستانی فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن وردھمان کی رہائی کے پس پردہ انہی کا ہاتھ تھا۔


پاکستان میں ہندوستان کے سابق ہائی کمشنر شرت سبھروال اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ متعدد چیلنجز اور غیر مستحکم معیشت کے پیش نظر عاصم منیر گزشتہ دو یا اس سے زائد برسوں سے ہندوستان کے تعلق سے تحمل برتنے کی جنرل باجوہ کی پالیسی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اسٹریٹجک ایڈیٹر نروپما سبرامنین اپنے تفصیلی مضمون میں یہ انکشاف کرتی ہیں کہ پلوامہ اور بالاکوٹ کے بعد ہندوستانی فضائیہ کی کارروائی اور پاکستانی فضائیہ کی جوابی کارروائی کے دوران ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے ابھینندن  وردھمان کی رہائی کے لیے عاصم منیر سے بات کی تھی اور انہی کی وجہ سے ابھینندن کی رہائی ممکن ہو سکی تھی۔ لہٰذا میڈیا نے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ جنرل عاصم منیر کے دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات اگر بہتر نہیں ہوں گے تو شاید خراب بھی نہ ہوں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔