پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے سوال پوچھنا صحافی کو مہنگا پڑا، ملازمت سے دھونا پڑا ہاتھ

مریم اورنگ زیب نے صحافی کے اس دعوے کو خارج کر دیا کہ انھیں ملازمت سے ہٹا دیا گیا ہے، مریم نے کہا کہ پی ٹی وی نے انھیں کبھی بھی مستقل اور عارضی ملازم کی شکل میں کام پر نہیں رکھا تھا۔

شہباز شریف، تصویر آئی اے این ایس
شہباز شریف، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

پاکستان اس وقت مہنگائی کے ساتھ ساتھ معاشی بحران کی زد میں بھی ہے۔ قرض میں ڈوبے اس ملک کی موجودہ حالت انتہائی خراب ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اس کی وجہ سے بہت پریشان بھی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مہنگائی اور معیشت کے بارے میں صحافیوں کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے بچنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی بھی صحافی ان سے کچھ بھی پوچھتا ہے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جب ایک میٹنگ کے دوران اپنے ہی ملک کے ایک صحافی کے سوال پر وہ سخت برہم ہو گئے تھے۔ اس صحافی نے وزیر اعظم سے ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی کو لے کر سوال پوچھا تھا۔ اب خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ اس صحافی کو برخاست کر دیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق صحافی کا نام اعظم چودھری ہے۔ اعظم پی ٹی وی (سرکاری ملکیت والے چینل) میں کام کرتے تھے۔ اعظم نے بتایا کہ انھوں نے 30 جون کو پنجاب کے گورنر ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعظم شہباز سے سوال پوچھا تھا۔ اعظم چودھری نے مبینہ طور پر پاکستانی وزیر اعظم سے کہا تھا کہ میڈیا آزادانہ طور سے اپنا کام نہیں کر پا رہا ہے۔ اس میٹنگ میں شہباز حکومت کے دو وزرا بھی شامل تھے۔ وزیر اسحاق ڈار اور مریم اورنگ زیب کی موجودگی میں صحافی اعظم نے وزیر اعظم سے یہ سوال کیا تھا۔


اعظم چودھری نے وزیر اعظم سے کہا کہ برسراقتدار پارٹیوں کی حمایت کے باوجود بھی میڈیا آزادانہ طور سے اپنا کام نہیں کر پا رہا ہے۔ میڈیا پر پابندیوں کے معاملے میں موجودہ دور سب سے خراب ہے۔ انھوں نے بلاجھجک یہ سوال کیا کہ میڈیا پر پابندی کب اور کیسے ختم ہوگی؟ شہباز شریف نے اس سوال کو ٹال دیا۔ انھوں نے اعظم چودھری سے کہا کہ وہ اپنی بات وزیر برائے اطلاعات سے کہیں۔

بہرحال، پاکستانی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے صحافی کے اس دعوے کو خارج کر دیا کہ انھیں ملازمت سے ہٹا دیا گیا ہے۔ مریم نے کہا کہ پی ٹی وی نے انھیں کبھی بھی مستقل اور عارضی ملازم کی شکل میں کام پر نہیں رکھا تھا۔ مریم کا کہنا ہے کہ ’’میں اعظم چودھری کو جانتی ہوں اور ان کے نظریات سے واقف ہوں، لیکن اس کے باوجود انھیں پریس کانفرنس میں بلایا گیا تھا۔ انھیں ایک سوال پوچھنے کی اجازت دی گئی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ اگر شہباز حکومت کو صحافی کے سوالوں سے کوئی مسئلہ ہوتا تو انھیں پریس کانفرنس میں نہیں بلایا گیا ہوتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔