سوڈان میں تیسرے دن بھی فوج اور نیم فوجی دستہ کے درمیان جنگ جاری، مہلوکین کی تعداد 97 پہنچی

پورے سوڈان کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر رہے کشیدہ حالات نے بین الاقوامی طبقہ میں فکر پیدا کر دی ہے، اقوام متحدہ، افریقی یونین، عرب لیگ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سوڈان جنگ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

سوڈان جنگ، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

سوڈان میں مسلح فوج (ایس اے ایف) اور نیم فوجی دستہ ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے درمیان خرطوم و دیگر شہروں میں 15 اپریل سے شروع ہوا پرتشدد تصادم آج تیسرے دن بھی جاری رہی جس میں مہلوکین کی تعداد بڑھ کر 97 پہنچ گئی ہے۔ خبر رساں ایجنسی شنہوا کے مطابق تشدد میں سینکڑوں شہری زخمی ہوئے ہیں۔ ڈاکٹروں کے یونین نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ سوڈان میں کشیدہ حالات نے بین الاقوامی طبقہ میں وسیع فکر پیدا کر دی ہے۔ اقوام متحدہ، افریقی یونین، عرب لیگ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔

سوڈانی مسلح فوج (ایس اے ایف) اور نیم فوجی دستہ ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے درمیان خرطوم اور دیگر شہروں میں جاری پرتشدد تصادم نے ہنگامی ماحول پیدا کر دیا ہے۔ دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر جنگ شروع کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس تصادم کے آثار 12 اپریل کو ہی دکھائی دینے لگے تھے جب مشرقی سوڈان کے میرووے علاقہ میں آر ایس ایف نے فوجی گاڑیوں کو فوجی ہوائی اڈے کے پاس ایک جگہ پر منتقل کر دیا۔ اسے فوج نے ناجائز مانا۔ اس کے بعد سے ہی دونوں فوجی قوتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔


گزشتہ طویل مدت سے سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کے درمیان زبردست نااتفاقیاں سامنے آئی ہیں، خصوصاً فوجی اور شہری لیڈروں کے درمیان 5 دسمبر 2022 کو دستخط شدہ ایک خاکہ معاہدہ میں فوج میں آر ایس ایف کے مجوزہ انضمام کو لے کر۔ آر ایس ایف کی تشکیل 2013 میں ہوئی تھی اور اس کا وجود بدنام زمانہ جنجاوید ملیشیا کی شکل میں ہوا تھا، جس نے دارفر میں باغیوں سے بے رحمانہ انداز میں لڑائی لڑی تھی۔ تب سے آر ایس ایف لیڈر جنرل محمد حمدان دگالو نے ایک طاقتور فورس کی بنایا ہے جس نے یمن اور لیبیا میں جنگ میں مداخلت کی ہے اور سوڈان کی کچھ سونے کی کانوں پر اس کا کنٹرول ہے۔ حالانکہ اس پر جون 2019 میں 120 سے زیادہ مظاہرین کے قتل عام سمیت حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔

موجودہ جنگ کشیدگی کے واقعات میں جدید کڑی ہے، جو 2019 میں طویل وقت سے خدمت انجام دے رہے صدر عمر البصیر کو ہٹانے کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ ان کی تقریباً تین دہائی کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے سڑکوں پر کافی احتجاجی مظاہرے ہوئے اور فوج نے ان سے چھٹکارا پانے کے لیے تختہ پلٹ کیا۔ لیکن عام لوگ جمہوری حکومت کی طرف بڑھنے کے منصوبہ میں کردار کا مطالبہ کرتے رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔