ماریشس: ہندوستانیوں کی کُل آبادی کے 55 فیصد پر یوپی-بہار کے دلتوں کا ڈی این اے اثرانداز! ایک تحقیق میں انکشاف
ماریشس میں رہنے والے ہندوستانیوں کی کُل آبادی کا تقریباً 55 فیصد ڈی این اے یوپی کے پوروانچل اور بہار کے بھوجپوری بولنے والے دلت برادری سے ملتا ہے۔

ماریشس کا نام آتے ہی آنکھوں کے سامنے ایک خوبصورت جزیرہ کا نظارہ گھومنے لگتا ہے۔ قدرتی خوبصورتی اور خوشحالی کے لیے مشہور افریقہ کے پاس بسے ماریشس کی دریافت سال 1502 میں ہوئی تھی۔ یہاں کی کل آبادی 12 لاکھ کے قریب ہے، لیکن یہاں کی بول چال اور تہذیب میں ہندوستانی اثر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس ملک نے کم مدت میں ہی جس طرح سے دنیا میں اپنی شناخت قائم کی ہے اس میں ہندوستانی نژاد لوگوں اور خاص طور سے دلت برادری کا اہم تعاون ہے۔ بھوجپور کے دلت طبقہ کے لوگ آج بھی ماریشس کو ترقی یافتہ بنانے میں مصروف ہیں۔ بی ایچ یو کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ ماریشس کے ہندوستانیوں کی کُل آبادی کا 55 فیصد ڈی این اے یوپی اور بہار کے بھوجپوری بولنے والے دلت برادری سے ملتا ہے۔
ڈی این اے سائنٹسٹ پروفیسر گیانیشور چوبے نے گزشتہ 4-3 سالوں کی اپنی تحقیق میں ان معلومات کو اکٹھا کیا ہے۔ پروفیسر چوبے نے 2021 سے اس تحقیق کی شروعات کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ماریشس سے کُل 40 سیمپل لیے گئے اور 20 سیمپل کی سیکوینسنگ کی گئی۔ جو نتیجہ سامنے آیا اس میں ماریشس میں رہنے والے ہندوستانیوں کی کُل آبادی کا تقریباً 55 فیصد ڈی این اے یوپی کے پوروانچل اور بہار کے بھوجپوری بولنے والے دلت برادری سے ملتا ہے۔ یعنی کہ پوروانچل کے ساتھ ساتھ بکسر، آرا، بھبھوا، چھپرہ اور سہسرام کے دلت طبقہ کے لوگوں کے ڈی این اے کے ساتھ ملا۔
پروفیسر گیانیشور چوبے بتاتے ہیں کہ 2021 میں جب ماریشس سے ایک شخص اپنی اصل تک پہنچنے کی کوشش میں یہاں آیا تو اس تحقیق کی شروعات ہوئی۔ اس کے بعد ان کے ذریعہ ہی ماریشس کے کئی لوگوں کو راضی کیا گیا اور ان سے سیمپل اکٹھا کیا گیا۔ بھوجپوری علاقہ کے سیمپل کا ڈیٹا بیس ان کے پاس پہلے سے ہے۔ 4 سال کی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ سامنے ہے۔
پروفیسر گیانیشور بتاتے ہیں کہ 1510 میں ماریشس پر سب سے پہلے پرتگالیوں کا قبضہ ہوا۔ لیکن افریقہ سے مزدوروں کو ماریشس میں آباد کرنے کی شروعات 1670 میں نیدرلینڈ کے ڈچوں نے کی۔ 1810 میں کالرا اور ملیریا بیماری پھیلنے لگی، قوت مدافعت کم ہونے کے سبب یہ لوگ بیمار ہونے لگے۔ افریقہ کے لوگ اس بیماری کو برداشت نہیں کر پائے اور ان کی موت ہونے لگی۔ 28 سال کے بعد فرانس نے قبضہ کیا تو انہی مزدوروں سے کام کرایا۔ 1810 میں انگریزوں کے ماریشس پر قبضہ کرنے کے بعد سے یوپی اور بہار سے مزدوروں کو وہاں لے جایا گیا۔ 1834 میں ’اینٹی سلیوری لا‘ (غلامی کے خلاف قانون) پاس ہونے کے بعد اس میں مزید تیزی آ گئی۔
ماریشس جانے والے مزدور اپنی ثقافت اور عقیدے کو اب تک زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ماریشس کی ثقافت اور بنارس سے اس کے تعلق پر طویل عرصے سے کام کر رہے پروفیسر آر بی سنگھ کہتے ہیں کہ ’’نوین چندر رام غلام جب بنارس میں ہوں گے تو یقینی طور پر وہ اپنی اصل کو محسوس کر رہے ہوں گے۔ کپاس اور گنے کی زراعت کے لیے بھوجپور علاقہ (اس وقت پوروانچل کا نام استعمال میں نہیں تھا) کے غریب لوگوں کو ماریشس، فجی، ٹرینیڈاڈ، فرانسیسی گیانا جیسے علاقوں میں لے جایا گیا۔ یہ مزدور اپنے ساتھ تلسی کی مالا، گنگاجل اور رام چرت مانس لے گئے تھے۔ جن تکالیف اور بے پناہ مصائب کو ان لوگوں نے برداشت کیا اس کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ پروفیسر آر پی بی سنگھ کہتے ہیں کہ عظیم ناول نگار ولیم لکھتے ہیں ’’یوپی اور بہار کے بھوجپوری بولنے والے سب سے کمزور طبقے کے یہ لوگ جب زنجیروں میں بندھے گنے اور کپاس کی زراعت کرتے تھے تو اس ناقابل برداشت تکلیف میں بھی رام چرت مانس گنگناتے رہتے تھے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔