’مسلمان سمجھ لیا تھا اس لئے پیٹ دیا‘ داڑھی دیکھ کر نوجوان کی پٹائی کے بعد پولیس کی وضاحت!

دیپک علاج کے لئے سرکاری اسپتال جا رہے تھے تبھی پولیس نے انہیں پیٹ دیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اب پولیس افسران اپنے دفاع میں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے دیپک کو مسلمان سمجھ لیا تھا اس لئے پیٹ دیا!

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مدھیہ پردیش کے بیتول میں ایک حیران کر دینے والا واقعہ رونما ہوا ہے۔ یہاں پر دیپک بندیلے نامی ایک وکیل کو پولیس نے بے رحمی سے زد و کوب کیا اور اب اس پر اپنی شکایت واپس لینے کا دباؤ بنا رہی ہے۔ پولیس والوں پر الزام ہے کہ انہوں نے دیپک کی پٹائی اس لئے کی، کیوںکہ حلیہ سے وہ مسلمان لگ رہا تھا۔ اس معاملہ میں پولیس انتظامیہ نے ایک اے ایس آئی (اسسٹنٹ سب انسپکٹر) کو معطل کر دیا ہے۔ دیپک کی پٹائی کا واقعہ 23 مارچ کو پیش آیا تھا۔ دیپک اس دن علاج کے لئے سرکاری اسپتال جا رہے تھے۔ دیپک ذیابطیس کے مریض ہیں، اس وقت تک لاک ڈاؤن نافذ نہیں ہوا تھا، تاہم مدھیہ پردیش میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

دیپک نے کہا، ’’میں گزشتہ 15 سالوں سے بلڈ پریشر اور ذیابطیس کا مریض ہوں۔ اس دن میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اس لیے میں اسپتال جانے کے لئے گھر سے نکلا تھا۔ لیکن راستہ میں مجھے پولیس والوں نے روک لیا۔ میں نے پولیس والوں سے کہا کہ میں اپنی دوائی لینے جا رہا ہوں مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور مجھے تھپڑ رسید کر دیئے۔‘‘

دیپک بندیلے نے کہا، ’’میں نے ان سے کہا کہ انہیں آئین کی حدود کے اندر کام کرنا چاہیے اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں نے کچھ غلط کیا ہے تو میرے خلاف دفعہ 188 کے تحت مقدمہ درج کر لیں۔ میں حراست میں جانے کو تیار ہوں۔‘‘


بقول دیپک اتنا سننے کے بعد تو پولیس والوں نے اپنا آپا ہی کھو دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’پولیس والوں نے مجھے ہی نہیں، ساتھ میں آئین کو بھی گالیاں دینے لگے۔ کچھ دیر کے بعد وہاں کئی اور پولیس افسران پہنچ گئے اور مجھے لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔‘‘ دیپک نے کہا کہ جب انہوں نے بتایا کہ وہ ایک وکیل ہیں اور ان کے خلاف شکایت کریں گے، تو پولیس والوں نے انہیں پیٹنا بند کر دیا، لیکن تب تک ان کے کان سے خون بہنے لگا تھا۔

دیپک نے 24 مارچ کو ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ ڈی ایس بھدوریا اور ڈی جی پی وویک جوہری کے پاس شکایت درج کرائی۔ دیپک نے بتایا کہ جب سے انہوں نے شکایت درج کی ہے پولیس ان پر دباؤ بنا رہی ہے کہ وہ شکایت واپس لے لیں۔ دیپک نے کہا، ’’کچھ اعلی افسران نے کہا کہ آپ اپنی شکایت واپس لے لو۔ وہ بیان جاری کر کے اس واقعہ کی مذمت کر دیں گے اور معافی بھی مانگ لیں گے۔ اس کے بعد مجھے دھمکی دی گئی کہ اگر میں اور میرا بھائی جو وکیل ہے، سکون سے اپنی پریکٹس کرنا چاہتے ہیں تو شکایت واپس لے لیں۔‘‘


دیپک نے کہا کہ ’’میرے پاس آڈیو موجود ہے جس میں ایک پولیس والا کہہ رہا ہے کہ تمہاری غلطی سے پٹائی ہو گئی۔ پولیس اہلکار کو لگا کہ تم مسلمان ہو کیوں کہ تمہاری داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور وہ پولیس والا کٹر ہندو تھا۔ اب تم بات کو آگے مت بڑھاؤ۔‘‘ ملزم پولیس اہلکار بھوانی سنگھ پٹیل کو بعد میں معطل کر دیا گیا۔

اس واقعہ پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دیپک نے کہا، ’’ہمارے سماج میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر بویا جا رہا ہے لیکن یہ آگ صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں رہنے والی۔ یہ سماج کے حاشیہ پر کھڑے تمام لوگوں کے لئے خطرناک ہے۔ ‘‘


دیپک کو اب خوف ہے کہ پولیس ان کے خلاف فرضی مقدمہ درج کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پولیس والے بیان درج کرتے وقت مجھ سے کہہ رہے تھے، وکیل صاحب! پولیس سے دوستی رکھوگے تو دونوں بھائیوں کی وکالت اچھی چلتی رہے گی، نہیں تو پولیس کسی بھی جھوٹے مقدمہ میں پھنسا سکتی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’مسلمانوں کی ایک الگ شبیہ بھارت کے میڈیا نے بنا دی ہے جس سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ لیکن ابھی پورا سماج خراب نہیں ہوا ہے، بلکہ ابھی بھی ایک بڑا حصہ سیکولر ہے۔ جب تک یہ ایک حصہ موجود ہے تب تک بہتری کی امید برقرار ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 May 2020, 6:57 PM