یوگی آدتیہ ناتھ کا ’یو-ٹرن‘، مہاجر مزدوروں کو کام دینے سے پہلے دوسری ریاستوں کو نہیں لینی ہوگی اجازت

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دو دن پہلے کیے گئے اعلان پر یو-ٹرن لے لیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر دیگر ریاستیں یو پی کے مزدوروں کو روزگار دیتی ہیں تو انھیں اجازت لینی ہوگی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دو دن قبل کیے گئے اعلان پر یو-ٹرن لے لیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر دیگر ریاستیں یو پی کے مزدوروں کو روزگار دیتی ہیں تو انھیں اجازت لینے کی ضرورت ہوگی۔ اس ایشو نے ایک بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا تھا اور اب ایک سرکاری ترجمان نے کہا ہے کہ حکومت مائگرینٹ کمیشن کے ضمنی ضابطوں میں 'قبل اجازت' کے اس حصہ کو شامل نہیں کرے گی۔

حکومت کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ ریاست لوٹنے والے مہاجر کامگاروں کو ملازمت اور سماجی سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے کمیشن تشکیل کرنے کے طور طریقوں پر کام ہو رہا ہے۔ مائگرینٹ کمیشن کو 'شرمک کلیان آیوگ' نام دیا ہے۔ تقریباً 26 لاکھ مہاجر پہلے ہی ریاست میں لوٹ آئے ہیں اور ان کے ہنر کو دھیان میں رکھ کر انھیں کام اور ملازمت دلانے میں مدد کرنے کی قواعد کی جا رہی ہے۔


ٹیم 11 کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ "وزیر اعلیٰ نے کمیشن کی تشکیل کے لیے طور طریقوں پر گفتگو کی۔ ساتھ ہی دیگر ریاستوں کو ہماری عوامی طاقت کو روزگار دینے کے لیے اتر پردیش حکومت سے قبل اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ کمیشن قائم کیا جا رہا ہے۔ مزدوروں کو روزگار اور سماجی سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے تیاری کی جا رہی ہے۔ ہم مہاجرں کو گھر اور قرض وغیرہ دینے کے لیے سرکاری منصوبوں سے بھی جوڑیں گے۔"

یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ اتر پردیش واپس آنے کے خواہش مند مہاجر مزدوروں کے بارے میں پتہ لگانے کے لیے سبھی ریاستی حکومتوں کو خط بھیجا جانا چاہیے۔ اس سے قبل اتوار کو ایک ویبنار میں کہا تھا کہ "مائیگریشن کمیشن مہاجر مزدوروں کے مفاد میں کام کرے گا۔ اگر کوئی دیگر ریاست یو پی کا مین پاور چاہتا ہے، تو وہ انھیں ویسے ہی نہیں لے سکتے ہیں، کیونکہ اس کے لیے انھیں اتر پردیش حکومت سے اجازت لینی ہوگی۔ جس طرح سے ہمارے مہاجر مزدوروں کے ساتھ دیگر ریاستوں میں برا سلوک کیا گیا، یو پی حکومت ان مہاجر مزدوروں کے ساتھ ہے اور وہ ان کے بیمہ، سماجی سیکورٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے گی۔" ان کے اس بیان پر کچھ سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں نے سوال اٹھایا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔