کیا ’ہم دو، ہمارے دو‘ صرف مودی حکومت پر نافذ ہوگا؟ موہن بھاگوت کی ’3 بچوں‘ والی اپیل پر جئے رام رمیش کا سوال
آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں ہندوستانی خاندان کم از کم 3 بچے پیدا کریں۔ اس بیان کو آبادیاتی خدشات اور معاشی استدلال کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔

کانگریس کے سینئر لیڈر اور جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت کی ایک خاص اپیل پر مودی حکومت کے سامنے چبھتا ہوا سوال پیش کر دیا ہے۔ موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں ہندوستانی خاندان کم از کم 3 بچے پیدا کریں۔ اس بیان کو آبادیاتی خدشات اور معاشی استدلال کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ اسی بیان کو پیش نظر رکھتے ہوئے جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ جاری کر کچھ اہم حقائق کی طرف نشاندہی کی ہے۔
سوشل میڈیا پوسٹ میں جئے رام رمیش نے لکھا ہے کہ ’’گجرات میں جن اشخاص کے 2 سے زیادہ بچے ہیں، انھیں مقامی بلدیوں (پنچایت، نگر پالیکا اور میونسپل کارپوریشن) کے انتخاب لڑنے سے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ آسام میں جن اشخاص کے 2 سے زائد بچے ہیں، وہ ریاستی حکومت کی کسی بھی سروس یا عہدہ پر تقرری کے لیے اہل نہیں ہے۔ اتراکھنڈ میں جن اشخاص کے 2 سے زیادہ بچے ہیں، انھیں پنچایت انتخاب لڑنے سے روک دیا گیا ہے۔‘‘ ان حقائق کو پیش کرنے کے بعد جئے رام رمیش لکھتے ہیں کہ ’’اب آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت، جو 5 دنوں میں 75 سال کے ہونے والے ہیں، انھوں نے ہر ہندوستانی جوڑے سے ’ہم دو، ہمارے تین‘ کی حکمت عملی اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔‘‘ پھر وہ چبھتا ہوا یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’کیا ’ہم دو، ہمارے دو‘ صرف مودی حکومت پر نافذ ہوگا؟‘‘
قابل ذکر ہے کہ گجرات میں لوکل باڈی قوانین کے تحت 2 بچوں سے زیادہ بچوں والے امیدوار بعض حالات میں انتخابات لڑنے کے اہل نہیں بتائے گئے ہیں۔ اس پالیسی کی بنیاد اور اطلاق پر عدالتوں اور حلقوں میں تنازع رہا ہے اور گزشتہ برسوں میں چند کونسلروں کو اسی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا۔ جہاں تک آسام کا معاملہ ہے، ریاستی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جن افراد کے 2 سے زائد زندہ بچے ہیں، وہ ریاستی ملازمتوں یا بعض سرکاری مراعات کے لیے اہل نہیں سمجھے جائیں گے۔ یہ قدم مقامی سطح پر آبادیاتی انتظام اور وسائل کے تقاضوں کے نام پر اٹھایا گیا تھا۔ اسی طرح اتراکھنڈ حکومت نے پنچایت انتخابات میں 2 بچوں کی حد لگا رکھی ہے، جس پر عدالتوں میں چیلنج اور بحث ہوئی۔ بعض فیصلوں نے پرانے معاملات کے لیے رعایتیں بھی دی ہیں، لیکن یہ قانون مختلف مواقع پر خوب سرخیوں میں رہتا ہے۔
بہرحال، آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ’3 بچوں‘ والی پالیسی اختیار کرنے سے متعلق بیان دیا تھا۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں ہندوستانی خاندان کم از کم 3 بچے پیدا کریں۔ ناقدین نے بھاگوت کے اس بیان کو سیاسی و سماجی مضمرات کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ بھاگوت کے اس بیان نے قومی سطح پر ایک نئی بحث شروع کر دی ہے اور یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ کیا غیر سرکاری شخصیات ایسی سماجی ہدایات دے سکتے ہیں جن سے ریاستی سطح پر کسی خاص پالیسی کے نفاذ کی راہ ہموار ہو؟