’یونیفارم سول کوڈ کے نام پر تفریق کیوں؟‘ درج فہرست قبائل کی طرح مسلموں کو چھوٹ نہ دینے سے مولانا ارشد مدنی ناراض

مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ شریعت کے خلاف کوئی بھی قانون مسلمانوں کو منظور نہیں ہے، ساتھ ہی انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر درج فہرست قبائل کو بل میں چھوٹ دی جا سکتی ہے تو مسلمانوں کو کیوں نہیں۔

<div class="paragraphs"><p>مولانا ارشد مدنی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

مولانا ارشد مدنی، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) نافذ کرنے کی سمت میں اہم قدم اٹھاتے ہوئے آج ریاستی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے یو سی سی بل پیش کر دیا۔ اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت کے اس فیصلہ پر جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’ہمیں کوئی ایسا قانون قابل قبول نہیں جو شریعت کے خلاف ہو۔ کیونکہ مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے، لیکن اپنی شریعت سے قطعی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا اپنے مذہبی امور میں کسی طرح کی بیجا مداخلت برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ آج اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ پاس ہو گیا جس میں درج فہرست قبائل کو آئین کے آرٹیکل 366 اے باب 25 اے ذیلی دفعہ 342 کے تحت نئے قانون سے چھوٹ دی گئی ہے۔ اس کے لیے یہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین آرٹیکل 21 کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس پر مولانا ارشد مدنی نے سوال اٹھایا کہ اگر آئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے علیحدہ رکھا جا سکتا ہے جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو منظوری دے کر مذہبی آزادی کی گارنٹی دی گئی ہے، تو پھر مسلموں کو اس سے علیحدہ کیوں نہیں رکھا جا سکتا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ’’اگر یہ یکساں سول کوڈ سبھی کے لیے ہے تو پھر شہریوں کے درمیان یہ تفریق کیوں؟ ہماری قانونی ٹیم بل کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی، جس کے بعد قانونی کارروائی سے متعلق فیصلہ لیا جائے گا۔‘‘


مولانا ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی ملک میں، جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے اپنے اپنے مذہبی عقیدوں پر پوری آزادی کے ساتھ عمل کرتے آئے ہیں، وہاں یکساں سول کوڈ آئین میں شہریوں کو دیے گئے بنیادی حقوق سے ٹکراتا ہے۔ سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولر آئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کا ہے۔ کیونکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور آئین میں سیکولرزم کا مطلب یہ ہے کہ ملک کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔ اس لیے یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ یہ ملک کے اتحاد و سالمیت کے لیے بھی مضر ہے۔ یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے لیے دفعہ 44 کو بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے اور یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کی بات تو آئین میں کہی گئی ہے۔ حالانکہ دفعہ 44 گائیڈلائن نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مشورہ ہے۔ لیکن آئین کی دفعہ 25، 26 اور 29 کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو قبول کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی گارنٹی دی گئی ہے۔

جمعیۃ کے صدر نے کہا کہ دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کو ہی نظر انداز کر دیتا ہے، پھر بھی ہماری حکومت کہتی ہے کہ ایک ملک میں ایک قانون ہوگا اور یہ بھی کہ ایک گھر میں دو قانون نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ ہمارے یہاں کی آئی پی سی اور سی آر پی سی کی دفعات بھی پورے ملک میں یکساں نہیں ہیں۔ ریاستوں میں اس کا خاکہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ ملک میں گئوکشی کا قانون بھی یکساں نہیں ہے، جو قانون ہے وہ پانچ ریاستوں میں نافذ نہیں ہے۔ ملک میں ریزرویشن کے تعلق سے سپریم کورٹ نے اس کی حد 50 فیصد طے کی ہے، لیکن مختلف ریاستوں میں 50 فیصد سے زیادہ ریزرویشن دیا گیا ہے۔ مولانا مدنی نے سوال کیا کہ جب پورے ملک میں سول لاء ایک نہیں ہے تو پھر ملک بھر میں ایک فیملی لاء نافذ کرنے پر زور کیوں؟ ہمارا ملک کثیر ثقافتی اور کثیر مذہبی ملک ہے، یہی اس کی خاصیت ہے، اس لیے یہاں ایک قانون نہیں چل سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔