’ہمارے پیارے کہاں ہیں؟‘ یمنا ایکسپریس وے حادثے کے 2 روز بعد بھی 20 افراد کا کوئی سراغ نہیں

لواحقین کا کہنا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کے پاس فی الحال کوئی ٹھوس اطلاع نہیں ہے۔ وہ لاشوں کی شناخت کرنے سے قاصر ہیں اور نہ ہی یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا نہیں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل فوٹو</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

یمنا ایکسپریس وے حادثے میں کتنے لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے، اس کی صحیح تعداد بدھ کو بھی صاف نہیں ہوسکی۔ اب تک صرف 3 لوگوں کی شناخت ہوسکی ہے جب کہ 20 لوگ تاحال لاپتہ ہیں۔ موبائل، سامان اور شناختی دستاویزات آگ میں جل جانے سے لواحقین بے بس ہوکر اپنوں کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ منگل کی صبح ہونے والے حادثے کے بعد سے بسوں میں سفر کررہے مسافروں، ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں اور کلینر کے اہل خانہ اسپتالوں، پوسٹ مارٹم ہاؤس اور پولیس دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں، لیکن کسی کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے۔

موبائل فون بند ہیں، مواصلاتی روابط  منقطع ہیں۔ آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر بے بسی لئے اہل خانہ بس ایک ہی سوال کررہے ہیں کہ ہمارے پیارے کہاں ہیں؟ بدھ کے روز پوسٹ مارڈٹم ہاؤس میں 20 سے زیادہ افراد معلومات حاصل کرنے پہنچے۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کے پاس فی الحال کوئی ٹھوس اطلاع نہیں ہے۔ وہ لاشوں کی شناخت کرنے سے قاصر ہیں اور نہ ہی یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا نہیں۔ ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ اہل خانہ خاندان کا درد مزید گہرا ہوتا جارہا ہے۔ اس حادثے نے نہ صرف جانیں لی ہیں بلکہ کئی گھروں کا سکون اور نیند بھی چھین لیا ہے۔


حالات یہی بتارہے کہ حادثے میں موت کا شکار ہونے والوں میں سے اپنے پیاروں کی شناخت کے لیے متاثرین کو صبرکا امتحان دینا ہوگا۔ انہیں شناخت کے لیے ایک ہفتے انتظار کرنا پڑے گا۔ لاشوں کی حالت ایسی ہے کہ شناخت مشکل ہوگئی ہے، اس لیے ڈی این اے کا سہارا لیا جارہا ہے۔ 11 افراد کی ڈی این اے سیمپلنگ ہو گئی ہے۔ شناخت کے عمل کے دوسرے دن بھی اسپتال اور پوسٹ مارٹم سینٹر کے باہر کہرام مچا ہوا ہے۔

انتظامیہ کی جانب سے تشکیل دی گئی خصوصی ٹیم نے باقیات کی شناخت کی تصدیق کے لیے لواحقین سے خون کے نمونے لئے ہیں۔ پہلے دن 7 لوگوں کے نمونے لیے گئے جبکہ دوسرے دن بدھ کو مزید 4 افراد نے بھی اپنے ڈی این اے نمونے سونپے ہیں۔ اب تک 11 افراد کے نمونے فرانزک جانچ کے لیے محفوظ کئے جاچکے ہیں۔ میڈیکل افسران کے مطابق ڈی این اے میچنگ کا عمل حساس اور وقت طلب ہوتا ہے۔ نمونوں کو جانچ کے لیے آگرہ واقع لیب بھیجا گیا ہے۔ اس عمل کو مکمل ہونے میں کم از کم ایک ہفتہ لگے گا۔ اس دوران لواحقین اپنے پیاروں کی باقیات پانے کی امید میں پوسٹ مارٹم ہاؤس اور ضلع اسپتال کے چکر لگا رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔