ہم پہلے بھی بے قصور تھے، آج بھی بے قصور ہیں، لیکن...

سورت کی عدالت سے بری قرار پائے 123 افراد میں سے ایک ضیاء الدین صدیقی نے سوال پوچھا کہ ’’ہم نے 15 ماہ جیل میں گزارے، 20 سالوں تک ذہنی کرب برداشت کیا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

اورنگ آباد: ہم کل بھی بے قصور تھے اور آج بھی بے قصور ہیں، لیکن گزشتہ 20 سالوں کے دوران زبردست ذہنی و جسمانی تکالیف اور معاشی پریشانیاں برداشت کرنے اور بے قصور ہونے کے باوجود ڈیڑھ سال تک جیل میں گزارنے کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر بائیکاٹ کیے جانے، کاروبار کے تباہ ہونے اور نوکریوں سے نکال دیئے جانے کے باعث جو کوفت اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟

اس طرح کا سوال اٹھاتے ہوئے 6 مارچ 2021 کو سورت کی عدالت سے بری قرار پائے 123 افراد میں سے مراٹھواڑا سے تعلق رکھنے والے 2 افرا ضیاءالدین صدیقی ( اورنگ آباد) اور عبدالستار میمن ( جالنہ) نے آج اورنگ آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا کہ قانونی ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد جلدہی ازالہ کے لیے ایک پٹیشن داخل کی جائے گی۔ اس موقع پر انھوں نے موجودہ نظام عدل اور اس کے طریقہ کار پر بھی سوال اٹھایا کہ 123 بےقصور افراد جن میں ڈاکٹرس، انجینئرس، پروفیسرس، علماء اور ایمہ اکرام شامل تھے، انھیں انصاف دینے میں پورے 20 سال لگ گئے۔!


20 سالوں کے دوان ان لوگوں کو جو ذہنی کرب اور مالی پریشانیاں برداشت کرنا پڑی اس کی مختصراً تفصیل بتاتے ہوئے ضیاء الدین صدیقی نے کہا کہ دسمبر 2001 میں آل انڈیا مائناریٹی ایجوکیشن بورڈ کے ایک سیمنار میں شرکت کے لیے پہنچے ان افراد کو پولیس نے یہ الزام لگا کر کہ یہ لوگ ممنوعہ تنظیم 'سٹؤڈنٹس اسلامک مؤمنٹ آف انڈیا '(سیمی) کو مضبوط کرنے اور اسے نئی زندگی دینے کے لیے بھارت بھر سے یہاں جمع ہوئے ہیں، گرفتار کر لیا اور ان پر یو اے پی اے 1967 (UAPA) کی مختلف دفعات لگا کر مقدمہ درج کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ان لوگوں کے 15 ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑے۔

اس دوران میڈیا نے ان کے خلاف بڑے پیمانے پر جھوٹا پروپیگنڈا کیا، جس سے سماج ، دوست احباب اور رشتہ داروں میں ان کے تعلق سے بدگمانیاں پیدا ہوئیں اور ان کی شبیہ خراب ہوئی۔ جس سے کئی افراد کا روزگار متاثر ہوا، نوکریوں سے ہاتھ دھونا بڑا، شادیوں میں روکاوٹیں پیدا ہوئیں، اس کی ایک مثال دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ایک صاحب کا تقریباً 100 جگہ لڑکی والوں نے محض اس مقدمہ اور سیمی سے تعلق کے سبب رشتہ منظور نہیں کیا گیا۔


انھوں نے بتایا کہ کورٹ نے پولیس کی جانب سے لگائی گئی دفعات کو غیر اطمنان بخش اور باطل قرار دے کر بری کیے جانے والے 123 افراد میں مہاراشٹڑا سے 44، گجرات سے 25، مدھیہ پردیش سے 13، کرناٹک سے 11، اتر پردیش سے 10، راجھستان سے 9 ویسٹ بنگال اور تامل ناڈو سے 4 ، 4 ، بہار سے 2 اور چھتیس گڑھ سے ایک فرد شامل ہے۔ ان میں سے 7 افراد انتقال کر چکے ہیں اور 5 افراد اب بھی جیل میں ہیں کیونکہ ان پر مزید الزامات اور دوسری دفعات لگائی گئی ہیں۔

اس موقع پر خود کو بے قصور قرار دیئے جانے پر انھوں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے بھی بے قصور تھے اور آج بھی بے قصور ہیں۔ لیکن اس دوران 20 سالوں میں ہم نے جو تکلیف اور پریشانیاں برداشت کیں اس کے لیے ذدمہ دار کون؟ اور کیا ان افراد پر کارروائی ہوگی جنھوں نے ہم بے گناہوں کو جھوٹے کیس میں پھنسا کر ہماری زندگی اجرن کر دی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔