’مذہبی آزادی‘ پر مبنی امریکی رپورٹ جاری، مودی حکومت کو دیا جھٹکا!

یو ایس سی آئی آر ایف کی طرف سے جاری سالانہ رپورٹ میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کی حالت کو منفی قرار دیا گیا ہے۔ ہندوستان کو’فکر انگیز حالات والے ممالک‘ کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔

 نریندر مودی، تصویر پی آئی بی
نریندر مودی، تصویر پی آئی بی
user

تنویر

ہندوستان میں اقلیتی طبقہ پر ہو رہے مظالم اور اور دلتوں کے استحصال کی خبریں لگاتار سامنے آ رہی ہیں۔ لاک ڈاؤن میں بھی مذہبی منافرت کے واقعات میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ گزشتہ ایک مہینے میں ہی کئی مسلم افراد کی موب لنچنگ کی خبریں سامنے آ چکی ہیں، اور اتر پردیش میں تو دو مساجد کو منہدم کیے جانے کا بھی معاملہ سامنے آ چکا ہے۔ ان واقعات کی وجہ سے ہندوستان کی شبیہ بیرون ممالک میں بھی خراب ہو رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال ایک امریکی رپورٹ ہے جس میں ’مذہبی آزادی‘ معاملہ میں ہندوستان کو ’منفی‘ درجہ دیا گیا ہے۔

دراصل یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) کی طرف سے جاری سالانہ رپورٹ میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کی حالت کو منفی قرار دیا گیا ہے۔ ہندوستان کو ’کنٹری آف پارٹیکلر کنسرن‘ یعنی ’فکر انگیز حالات والے ممالک‘ کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کو رخنہ انداز کرنے، سخت گیر مذہبی تنظیموں کی حمایت کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔


جاری کردہ رپورٹ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو لے کر ہوئے احتجاجی مظاہروں کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے ہندو نیشنلسٹ پالیسیوں کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے مذہبی آزاد کی لگاتار اور سنگین خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2020 کی شروعات میں سی اے اے کے خلاف مظاہرے ہوئے اور مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا۔

امریکی رپورٹ میں دہلی میں گزشتہ سال فروری میں پیدا تشدد کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق فروری 2020 میں تین دہائیوں بعد دو فرقوں کے درمیان سب سے زبردست تشدد پیدا ہوا۔ اس میں 50 سے زائد لوگ مارے گئے اور 200 دیگر زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندو نیشنلزم کے تئیں ہمدردی رکھنے والی بھیڑ نے مذہبی مقامات پر حملے کیے، ایک خاص طبقہ کے علاقوں میں گھروں اور دکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔


یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ میں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، ہریانہ، کرناٹک، آسام میں بیرون مذاہب شادیوں کو لے کر قانون بنائے جانے پر بھی فکر کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’جبراً مذہب تبدیلی‘ کے نام پر بیرون مذاہب شادیوں پر روک لگانے کے لیے ان ریاستوں نے قانون بنائے ہیں جن سے تشدد کا اندیشہ ہے۔ تبدیلیٔ مذہب مخالف آرڈیننس کو اتر پردیش کی گورنر نے 28 نومبر 2020 کو منظوری دی تھی، اس کے بعد کئی ریاستوں نے اس طرح کے قانون پاس کیے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال بھی اس امریکی ادارہ نے ہندوستان کو ’فکر انگیز حالات والے ممالک‘ کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی تھی۔ اس وقت ہندوستانی وزارت خارجہ نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ ’’ہم اپنے پرانے رخ پر قائم ہیں کہ کوئی باہری ہمارے شہریوں کی حالت کے بارے میں آ کر نہ بتائے جنھیں آئینی سیکورٹی ملی ہوئی ہے۔‘‘ وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان میں ایسا انتظام ہے جو مذہبی آزادی اور قانون کی حکمرانی سے متعلق تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔