سپریم کورٹ میں چلائی گئی عمر خالد کی تقریر کی ویڈیو، درخواست ضمانت پر آج دوبارہ ہوگی سماعت
سپریم کورٹ میں عمر خالد کی تقریر کی ویڈیو چلائی گئی، جہاں کپل سبل نے دلیل دی کہ گاندھیائی سول نافرمانی کو سازش نہیں کہا جا سکتا۔ یو اے پی اے کے استعمال پر بھی سوال اٹھے اور آج سماعت دوبارہ ہوگی

دہلی فساد 2020 سے متعلق سازش کیس میں ملزمین کی درخواست ضمانت پر منگل کو ’اوپن کورٹ‘ میں سماعت ہوئی جس میں اہم ملزمین گلفشاں فاطمہ، عمر خالد اور شرجیل امام کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے ٹرائل میں طویل تاخیر اور یو اے پی اے کی سخت دفعات کے نامناسب استعمال پر سنگین سوالات اٹھائے۔ اس سلسلے میں آج یعنی بدھ کو بھی سماعت ہوگی۔
جسٹس اروند کمار اور این وی انجاریا کی بنچ منگل کو دہلی فسادات سے متعلق سازشی کیس میں عمر خالد اور دیگر ملزمین کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کر رہی تھی، جس میں یو اے پی اے کے تحت جرائم شامل تھے۔
عمر خالد کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے کہا کہ خالد 13 ستمبر 2020 سے اب تک یعنی 5 سال اور 3 ماہ سے جیل میں ہے۔ ان کے مطابق پولیس کی دلیل صرف یہ ہے کہ خالد نے 17 فروری کو مہاراشٹر میں تقریر کی تھی۔ سبل نے کورٹ میں تقریر کی ویڈیو چلاتے ہوئے کہا کہ یہ تقریر مہاتما گاندھی کے اصولوں پر مبنی تھی۔ اس میں تشدد یا نفرت کو فروغ دینے جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔
کپل سبل نے کہا کہ گاندھیائی انداز میں سول نافرمانی کی وکالت کرنا کوئی سازش نہیں ہو سکتی اور کسی اکیڈمک شخص کو برسوں تک ایسی تحریک کے لیے جیل میں رکھنے سے کوئی عوامی دلچسپی پوری نہیں ہوگی، جس نے کچھ مسائل اٹھائے ہوں، صحیح یا غلط۔
سبل نے کہا کہ اگر کسی پر یو اے پی اے کے تحت ایسی تقریر کا الزام لگایا جاتا ہے، تو ہم میں سے بہت سے لوگ جیل چلے جائیں گے۔ ویڈیو کلپ میں خالد کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے آزادی کی لڑائی کے دوران گاندھی جی کے اختیار کردہ طریقوں پر عمل کریں گے۔ سبل نے کہا کہ تحقیقات میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی اور پولیس نے الزامات پر دلائل شروع ہونے سے پہلے بار بار کہا کہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی۔ اگر ضمانت نہیں ملی تو انہیں بغیر ٹرائل 8 سال تک جیل میں رہنا پڑے گا۔
وہیں، گلفشاں فاطمہ کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ ان کی مؤکل تقریباً 6 سال سے جیل میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 4 ضمنی اور ایک مین چارج شیٹ دائر کی جا چکی ہے۔ مقدمہ شروع ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ بغیر سزا کے اتنی طویل قید ہمارے فوجداری نظام انصاف کا مذاق اڑاتی ہے، یہ قبل از ٹرائل سزا ہے۔
سنگھوی نے ہائی کورٹ کی طرف سے نتاشا نروال اور دیوانگانا کلیتا کو دی گئی ضمانت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان پر سنگین الزامات ہیں اور وہ ایک ہی واٹس ایپ گروپ (ڈی پی ایس جی) سے وابستہ تھے، جبکہ گلفشاں اس گروپ کی رکن بھی نہیں تھی۔ انہوں نے دلیل دی کہ یو اے پی اے کے تحت خاتون کو اس طرح جیل میں رکھنا مناسب نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔