جان لیوا حملے کے ملزمان کی بریت کے خلاف عمر خالد کی دہلی ہائی کورٹ میں درخواست

جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طلبہ رہنما عمر خالد نے 2018 میں ان پر جان لیوا حملہ کے معاملہ میں دو ملزمان کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف بدھ کو دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا

عمر خالد، تصویر آئی اے این ایس
عمر خالد، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طلبہ رہنما عمر خالد نے 2018 میں ان پر جان لیوا حملہ کے معاملہ میں دو ملزمان کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف بدھ کو دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عمر خالد نے عرضی داخل کرتے ہوئے ملزمان کو اقدام قتل سے بری قرار دئے جانے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔ معاملہ کی آئندہ سماعت 21 مئی کو ہوگی۔ معاملہ کی سماعت کر رہے جسٹس انوپ کمار میندیرتا نے دہلی پولیس اور ملزمان نوین دلال اور درویش کو نوٹس جاری کیا ہے۔

یہ معاملہ 2018 میں کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا کے باہر پیش آیا تھا، جس کے سلسلہ میں عمر خالد کا الزام ہے کہ ان پر قتل کرنے کے ارادے سے حملہ کیا گیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے دلال اور درویش کو آئی پی سی کی دفعہ 307 کے تحت اقدام قتل کے الزام سے بری کر دیا لیکن ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 201، 34 اور اسلحہ قانون کی دفعہ 25 اور 27 کے تحت الزامات کو برقرار رکھا۔


پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج (اے ایس جے) دیوندر کمار جانگلا نے ملزمان کو بری کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی گواہ نے یہ الزام عائد نہیں کیا کہ ملزمان نے پستول کا ٹریگر دبایا کا دبانے کی کوشش کی اور ریکارڈ پر موجود سامان سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ملزمان عمر خالد کو جان سے مارنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

خالد کے وکیل نے دلیل دی کہ حملہ سے قبل ملزمان کی جانب سے فیس بک پر عمر خالد پر نظر رکھنے سے متعلق سنگین حقائق موجود تھے جو الزامات کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ خالد کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ تریدیپ پیس عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

خالد کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اگست 2018 میں کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک تقریب میں شرکت کے دوران دو افراد ان کے قریب آئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے ایک نے ان کی طرف بندوق اٹھائی لیکن اس کے دوستوں نے مداخلت کی اور حملہ آور خوف زدہ ہو کر فرار ہو گئے۔


خالد کا دعویٰ ہے کہ حملہ آوروں کے بھاگنے کے باوجود اس نے دوسری طرف سے گولیوں کی آوازیں سنی۔ ٹرائل کورٹ نے قتل کی کوشش کے الزام سے ملزمان کو بری کرنے کے اپنے فیصلے میں خالد کو قتل کرنے کا واضح ارادہ ظاہر کرنے والے شواہد کی کمی کا حوالہ دیا۔

ملزم کو دفعہ 307 کے تحت جرم سے بری کرنے کے بعد ٹرائل کورٹ نے کہا تھا کہ چونکہ ملزمان کے خلاف باقی جرائم مجسٹریٹ کی عدالت میں قابل سماعت ہیں، اس لیے فائل چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کو بھیجی جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔