لوک سبھا انتخابات 2024: ’لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے‘... سید خرم رضا

کسی کے گھر جاؤ یا چند لمحوں کی ملاقات ہو تو ذکر بس انتخابات کا ہوتا ہے، کوئی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی صلاحیتوں کا ذکر کرتا ہے، تو کوئی نتیش کمار کی مفاد پرست سیاست کا رونا روتا ہے...

<div class="paragraphs"><p>قطار بند ووٹرس</p></div>

قطار بند ووٹرس

user

سید خرم رضا

کووڈ کے دوران ہر شخص رات دن صرف ان دشواریوں کا رونا روتا رہتا تھا جو اس بیماری کی وجہ سے سماج کو درپیش تھیں۔ وہ فون کرتا تھا تو خیریت لینے کے لیے، یا کسی کو آکسیجن کی فراہمی میں آ رہی دقتوں کے حل کے لیے، اسپتال میں مریض کے داخلہ کے لیے، یہ بتانے کے لیے کہ بیماری میں ان چیزوں سے فائدہ ہوتا ہے اور ان چیزوں سے دوری بنائے رکھنا ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے لوگوں کو اپنے پیاروں کے آخری سفر میں کیا کیا دشواریاں آئیں، اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے، کیونکہ اس کے ذکر سے بھی خوف اور دہشت کی لہر پورے جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ جن کی بھی مالی حیثیت ٹھیک ٹھاک تھی ان کے گھر میں آکسیجن کی جانچ کرنے کے لیے ایک ’آکسی میٹر‘ ضرور آ گیا تھا۔ بہرحال وہ خوفناک دور تھا جس میں لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھویا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب ماسک اور آکسی میٹر ہی زندگی بن گئی ہیں، لیکن وہ اب پرانے دور کی بات ہو گئی، ٹھیک اس مصرع کی طرح کہ ’لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے‘۔

بہرحال، آج بھی کسی کے گھر جاؤ یا چند لمحوں کی ملاقات ہو تو ذکر بس انتخابات کا ہوتا ہے۔ کوئی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی صلاحیتوں کا ذکر کرتا ہے، تو کوئی نتیش کمار کی مفاد پرست سیاست کا رونا روتا ہے، کوئی راہل گاندھی کی بھارت جوڑو نیائے یاترا کا ذکر کرتا ہے، تو کوئی اروند کیجریوال کی گرفتاری کے اندیشوں پر بات کرتا ہے، کوئی مرکز کے ذریعہ سی اے اے لاگو کرنے کی بات کرتا ہے، تو کوئی ہریانہ میں اچانک وزیر اعلی کی تبدیلی کا ذکر کرتا ہے۔ ظاہر ہے یہ تذکرے تو ہوں گے ہی، ملک میں جلد ہی عام انتخابات جو ہونے ہیں۔


سماج پوری طرح منقسم نظر آ رہا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو وزیر اعظم نریندر مودی کو پوجنے کی حد تک چاہتا ہے، دوسرا طبقہ وہ ہے جو سماج اور اپنی تمام پریشانیوں کے لیے ان کو ذمہ دار مانتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اسی کے لیے جستجو کرتی ہے کہ وہ کیسے اقتدار میں رہے یا آئے۔ حکمراں جماعت کو تو بہت اچھی طرح علم ہے کہ اکثریتی طبقہ کے جذبات بھڑکا کر ہی اس طبقہ کی بڑی تعداد کے ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں۔ مایاوتی ہوں یا کوئی اور، وہ بھی اپنے طبقوں کی کھلی طور پر بات کرتے ہیں۔ بایاں محاذ بھی ایک خاص قسم کی ذہنیت کی بات کرتا ہے۔ اس سب میں کچھ سیاسی پارٹیاں ایسی بھی ہیں جو صرف مسلمانوں کی بات کرتی ہیں۔ بہرحال، اس سب میں کانگریس ایسی سیاسی پارٹی ہے جس کو کسی خاص طبقہ سے جو ڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔

کانگریس نے اقتدار میں رہنے اور آنے کے لیے تمام چیزیں کیں، جن کی خوب تنقید بھی ہوئی اور اس کے فیصلوں پر سوال بھی اٹھائے گئے۔ لیکن کانگریس نے جو بھی کیا وہ اقتدار میں رہنے یا آنے کے لیے کیا۔ ملک کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو کبھی کانگریس کے ساتھ نہ رہا ہو۔ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کانگریس کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی اس کوشش میں جہاں ان کے تعلق سے عوام کا تصور بہت حد تک بدلا ہے اور اس تبدیلی میں ان کی کسی حد تک حکمراں جمات کی موجودہ سیاست نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔


عوام جس طرح کووڈ سے خوفزدہ ہو گئی تھی، اس طرح مزید کسی بات سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس نظریہ کو بھی عوام پسند کریں، وہ ان کا حق ہے، لیکن فیصلہ کرتے وقت ہندوستان کی ترقی ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ ملک کی ترقی سے ہماری پہچان اور عزت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔