'جس سال پیگاسس جاسوسی شروع ہوئی، اسی سال سائبر ریسرچ کے نام پر بجٹ 33 سے بڑھا کر 333 کروڑ کر دیا گیا، آخر کیوں!'

کانگریس نے حکومت سے پوچھا ہے کہ 2017-18 میں سائبر سیکورٹی ریسرچ کے نام پر این ایس سی ایس کا بجٹ 33 کروڑ سے بڑھا کر 333 کروڑ کر دیا گیا، جبکہ یہ محکمہ پہلے ہی سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں موجود ہے

کانگریس ترجمان پون کھیڑا
کانگریس ترجمان پون کھیڑا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: کانگریس نے حکومت سے پیگاسس جاسوسی اسکینڈل پر ایک اور سوال پوچھا ہے۔ کانگریس نے کہا ہے کہ اس واقعہ سے تمام انکشافات ہو رہے ہیں اور اب تک حکومت نے واضح جواب نہیں دیا ہے کہ اس نے پیگاسس سافٹ ویئر خریدا ہے یا نہیں۔ جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا، "ہم نے تھوڑی سی تحقیق کی تو ایک حیران کن حقیقت کا انکشاف ہوا۔ جس سال میں پیگاسس کی جاسوسی شروع ہوئی تھی، یعنی 2017-18 میں وزارت داخلہ کے تحت قومی سلامتی کونسل سکریٹریٹ (این ایس سی ایس) کا بجٹ پیش کیا گیا تھا۔ اس میں ’این ایس سی ایس] کا بجٹ 33 کروڑ تھا، جسے 333 کروڑ روپے تک بڑھا دیا گیا۔

پون کھیڑا نے کہا کہ اس سکریٹریٹ کا کام انتظامی اور کوآرڈینیشن کرنا ہے، جو قومی سلامتی کونسل کو اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ لیکن 2017-18 میں اس میں ایک نیا شعبہ یا ہیڈ شامل کیا گیا، جسے سائبر سیکورٹی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا نام دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حیرت اس بات پر نہیں ہے کہ اس کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا، بلکہ حیرت اس بات کی ہے کہ یہی محکمہ پہلے ہی سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زیر انتظام کام کر رہا تھا اور اس کے لئے الگ سے بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ کانگریس کے ترجمان نے سوال پوچھا کہ سائبر سیکورٹی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے نام پر اس میں نیا ہیڈ کیوں شامل کیا گیا اور 33 کروڑ روپئے کے بجٹ کو 333 کروڑ روپے کیوں کر دیا گیا اور وہ بھی اس وقت جب 2017-18 میں جاسوسی معاملہ شروع ہوا؟


پون کھیڑا نے کہا کہ "آپ نے دیکھا کہ آئے دن انکشافات ہو رہے ہیں حکومت نے اپنے اسپائی ویئر کے ذریعہ صحافیوں، خاتون صحافیوں، سرکاری افسران، سی بی آئی کے اعلیٰ عہدیداران کی جاسوسی کرائی۔ ان تمام لوگوں پر ہی نہیں بلکہ ان کے اہل خانہ اور کنبہ کی خواتین تک کی سرگرمیوں پر نظر رکھی گئی۔ سوال یہ ہے کہ آخر پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعے جو معلومات حاصل کی جا رہی تھیں وہ کہاں جا رہی تھی؟‘‘

کانگریس کے ترجمان نے کہا کہ سابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر عجیب و غریب بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سافٹ ویئر 45 ممالک میں استعمال ہو رہا تھا، تو پھر صرف ہندوستان کی ہی کیوں بات کی جا رہی ہے! لیکن وزیر اس بات کی تردید نہیں کر پا رہے ہیں کہ معلومات حاصل نہیں کی جا رہی تھی۔


پون کھیڑا نے کہا کہ "ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا نریندر مودی یہ سوچتے ہیں کہ ہندوستان کے صحافی، ہندوستان کی سی بی آئی کے ڈائریکٹر، ہندوستان کی سی بی آئی کے افسران، ہندوستان کے صنعت کار، ہندوستان کے قائد حزب اختلاف، ایکٹویسٹ، کیا یہ تمام دہشت گرد ہیں؟ کیا آپ نے کسی دہشت گرد کو سی بی آئی کا ڈائریکٹر بنا دیا تھا؟ کیا آپ ان پر انسداد دہشت گردی سافٹ ویئر استعمال کر رہے تھے، وہ بھی ایک ایسا سافٹ ویئر جو بیرون ملک سے لایا گیا تھا۔ ملک ایک طویل عرصے سے ان تمام سوالوں کے جوابات کا منتظر ہے، جو انہیں نہیں مل رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کل فرانس نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے، اسرائیل نے بھی تحقیقات کا حکم دیا ہے، مراکش اور برازیل نے بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے لیکن ہماری حکومت اس معاملے کو التوا میں ڈال رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "حکومت کے مختلف وزرا مختلف بیانات دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم اس پر ایک لفظ بولنے کی ہمت نہیں کر پائے۔ ہم اس آدمی سے کیا توقع کریں گے جو رافیل کے نام سے کانپتا ہو، جو آدمی چین کے نام سے کانپتا ہے لیکن یہ دیکھ کر کہ باقی ملک کیا کر رہے ہیں اور ہمارا ملک کیا کر رہا ہے، شرم سے سر جھک جاتا ہے!


انہوں نے کہا کہ حکومت کو واضح کرنا ہوگا کہ پیگاسس سافٹ ویئر حکومت نے خریدا تھا یا کسی سرکاری ایجنسی نے۔ اور اگر حکومت نے خریدا ہے، تو پھر جس سافٹ ویئر کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے جانے والے لوگوں پر کیا جانا چاہیے تھا، تو کیا وہ اپنے عہدیداران، اپنے سیاستدان، اپنی پارٹی کے رہنما، صحافی، سماجی کارکن، سپریم کورٹ سے وابستہ لوگوں پر اس سافٹ ویئر کو استعمال کیا گیا؟ اور اگر حکومت نے سے استعمال نہیں کیا ہے، تو پھر اس سافٹ ویئر کو جو صرف حکومتوں کو فروخت ہوتا ہے، یہ کمپنی کا کہنا ہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں۔ پھر کس حکومت نے یہ کیا، مودی حکومت کے دوران ہمارے ملک کے شہریوں کی جاسوسی کس نے کی؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Jul 2021, 9:11 PM