چھوڑے گئے بچوں کے ریزرویشن معاملہ پر بامبے ہائی کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو لگائی سخت پھٹکار

مہاراشٹر حکومت نے ان بچوں کو ریزرویشن کا فائدہ دینے سے انکار کر دیا جنھیں ان کے والدین کے ذریعہ چھوڑ دیا گیا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے بچے ’یتیم‘ کے درجہ میں نہیں آتے ہیں۔

بامبے ہائی کورٹ / تصویر آئی اے این ایس
بامبے ہائی کورٹ / تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

اہل خانہ کے ذریعہ چھوڑے گئے بچوں کو ریزرویشن نہ دینے کے مہاراشٹر حکومت کے رخ پر بامبے ہائی کورٹ نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کے لیے حکومت کو ’حفاظت کی چھتری‘ کے طور پر کام کرنا چاہیے، لیکن ان کا رویہ بالکل مختلف ہے۔

واضح رہے کہ مہاراشٹر میں یتیم بچوں کو ایک فیصد ریزرویشن کا فائدہ ملتا ہے۔ اسی کے تحت دو بچیوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا جنھیں ان کے اہل خانہ نے چھوڑ دیا ھتا۔ عدالت کے حکم پر دونوں بچیوں کو یتیمی کا سرٹیفکیٹ تو مل گیا، لیکن حکومت نے یہ بھی کہا کہ وہ ریزرویشن کے دائرے میں نہیں آتی ہیں۔


دراصل مہاراشٹر حکومت نے ان بچوں کو ریزرویشن کا فائدہ دینے سے انکار کر دیا جنھیں ان کے والدین کے ذریعہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایسے بچے ’یتیم‘ کے درجہ میں نہیں آتے ہیں۔ جسٹس گوتم پٹیل اور جسٹس نیلا گوکھلے کی ڈویژنل بنچ نے شہر کے ایک غیر سرکاری ادارے کے ذریعہ دو لڑکیوں کے لیے ریزرویشن کی عرضی داخل کرنے کے بعد اس ایشو کو اٹھایا تھا، جنھیں ان کے والدین نے چھوڑ دیا تھا۔ اس تعلق سے عدالت نے ریاستی حکومت کو پھٹکار لگائی تو حکومت نے دونوں لڑکیوں کو ’یتیم‘ کا سرٹیفکیٹ فراہم کرنے پر رضامندی دے دی تاکہ وہ ریزرویشن کا مطالبہ کر سکیں۔ حالانکہ یہ بھی واضح کیا تھا کہ ان کا اسٹینڈ یہ تھا کہ یتیم اور چھوڑے گئے (جن کے ماں باپ انھیں چھوڑ دیتے ہیں) بچوں کے  درمیان فرق ہے۔

مہاراشٹر حکومت کے رخ سے ناراض عدالت نے کہا کہ حکومت ہر معاملے میں تذبذب والی حالت میں رہتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ’’ہمیں اس رویہ سے کیوں لڑنا ہے... ہمیں مخالفت کرنی ہے؟ یہ حکومت کب اس احساس کے تئیں جاگے گی کہ یہ صرف ایک ہی سہی نہیں ہے اور اکثر غلط ہے۔‘‘ بنچ نے محکمہ برائے ترقی خواتین و اطفال کے جوائنٹ سکریٹری شرد اہیرے کے ذریعہ حکومت کے رخ کو درست ٹھہرانے والے حلف نامے پر بھی ناراضگی ظاہر کی۔ بنچ نے کہا کہ حلف نامہ ہتک آمیز اور قابل مذمت ہے۔


حلف نامہ میں کہا گیا تھا کہ والدین/سرپرست اپنے بچوں کو قصداً چائلڈ کیئر سنٹر میں چھوڑ دیتے ہیں یا سپرد کر دیتے ہیں اور چائلڈ جسٹس (بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ) ایکٹ 2015 کا غلط استعمال کرتے ہیں تاکہ اسکولی تعلیم، رہنے اور دیگر سبھی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ کیا حکومت سمجھتی ہے کہ والدین کن مشکل حالات میں بچے کو چھوڑ دیتے ہیں؟ اس معاملے میں جسٹس پٹیل کا کہنا ہے کہ ’’ایک بچے کو چھوڑنے والی ماں کی حالت کو سمجھنے میں جنس مجھے رخنہ انداز کر سکتا ہے۔ ایک والد کی شکل میں بھی یہ ناقابل تصور ہے۔‘‘ عدالت نے کہا کہ ریاستی حکومت کو یتیم اور چھوڑے گئے بچوں کے درمیان فرق کرنے کی جگہ ایسے سبھی بچوں کے لیے ’محفوظ چھتری‘ کی شکل میں کام کرنا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ وہ 31 مارچ کو اس ایشو پر اپنا فیصلہ سنائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔