’ملکی مفاد کے خلاف ہو سکتا ہے 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ‘، محبوبہ مفتی کو اندیشہ

محبوبہ مفتی نے زور دے کر کہا کہ یہ یقینی بنانا عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے نہ بڑھائے بلکہ ملک اور اس کی آئین کی سالمیت کو برقرار رکھے۔

محبوبہ مفتی / یو این آئی
محبوبہ مفتی / یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ آئندہ 11 دسمبر یعنی پیر کے روز جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 منسوخ کیے جانے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر فیصلہ سنانے والی ہے۔ اس سے قبل جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک فکر انگیز بیان دیا ہے۔ پی ڈی پی (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) چیف محبوبہ مفتی نے 9 دسمبر کو اننت ناگ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کی سرگرمیاں اشارہ دے رہی ہیں کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ آئین کے آرٹیکل 370 سے جڑی عرضیوں پر سنایا جانے والا فیصلہ ملکی مفاد کے خلاف ہو سکتا ہے۔

محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ ’’جمعہ کی شب سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ مختلف پارٹیوں، خصوصاً پی ڈی پی کارکنان کے نام والی فہرستیں تھانوں کے ذریعہ سے لی جا رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ آنے والا ہے جو اس ملک اور جموں و کشمیر کے حق میں نہ ہو۔ بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ احتیاطی اقدام اٹھائے جا رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔‘‘


اس سلسلے میں ہندی نیوز پورٹل ’لائیو ہندوستان ڈاٹ کام‘ پر شائع رپورٹ میں محبوبہ مفتی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ یقینی کرنا عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے نہ بڑھائے، بلکہ ملک اور اس کی آئین کی سالمیت کو برقرار رکھے۔ سابق وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ عدالت کے فیصلے سے یہ واضح ہونا چاہیے کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کے ذریعہ 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے التزامات کو منسوخ کرنے سے متعلق لیا گیا فیصلہ ’ناجائز، غیر آئینی‘ تھا۔

میڈیا کے سامنے محبوبہ مفتی نے بلاجھجک انداز میں کہا کہ ’’پہلے تو سپریم کورٹ نے معاملوں کی سماعت میں کافی وقت لگایا۔ اس میں پانچ سال لگ گئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے پچھلے بیان میں کہا کہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو چھوڑ کر کوئی بھی آرٹیکل 370 کو رد نہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ فیصلہ آسان ہونا چاہیے کہ 5 اگست 2019 کو جو کچھ بھی کیا گیا وہ ناجائز، غیر آئینی، جموں و کشمیر اور یہاں کے لوگوں سے کیے گئے وعدوں کے خلاف تھا۔‘‘


اس سے قبل پارٹی کارکنان کو خطاب کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ پولیس سرگرم ہو گئی ہے اور پی ڈی پی سے منسلک لوگوں کو حراست میں لینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس سے یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا کوئی ’فکس میچ‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’آپ ہندوستانی آئین اور جمہوریت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں یا بی جے پی کے ایجنڈے کو، یہ آپ کو طے کرنا ہے۔ لیکن میں دیکھ رہی ہوں کہ پولیس جمعہ کی شب سے سرگرم ہو گئی ہے۔ وہ فہرست بنا رہی ہے تاکہ فیصلے سے پہلے لوگوں کو حراست میں لیا جا سکے۔ یہ اندیشہ پیدا کرتا ہے کہ کہیں کوئی فکس میچ تو نہیں ہے۔‘‘

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے تبصرہ پر بی جے پی کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ جموں و کشمیر بی جے پی صدر رویندر رینا کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 سے منسلک عرضیوں کو لے کر سپریم کورٹ یا اس کے فیصلے پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے۔ انھوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’’سپریم کورٹ یا اس کے فیصلوں پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اسے عدالت کی ہتک عزتی تصور کیا جاتا ہے۔ ملک کی عدالتیں قابل احترام ہیں اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جموں و کشمیر اور ملک کے سبھی 140 کروڑ لوگ اس فیصلے کا دل سے احترام کریں گے اور اسے قبول کریں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔