ایس آئی آر کے ذریعے قبائلیوں کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کی سازش: کانگریس

کانگریس نے الزام لگایا کہ ایس آئی آر کی مشق دانستہ طور پر ایسے وقت میں کی گئی جب قبائلی نقل مکانی پر تھے اور اس عمل کا مقصد انہیں ووٹنگ سے محروم رکھنا ہے

<div class="paragraphs"><p>کانگریس کے قبائلی امور کے شعبے کے سربراہ وکرانت بھوریا / ویڈیو گریب</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

کانگریس نے جمعہ کو الزام عائد کیا کہ ووٹر لسٹوں کے خصوصی گہرے جائزے (ایس آئی آر) کو اس طرح نافذ کیا جا رہا ہے کہ قبائلی برادری دانستہ طور پر انتخابی عمل سے باہر ہو جائے۔ پارٹی کے قبائلی شعبہ کے سربراہ وکرانت بھوریا نے کہا کہ جب بڑی تعداد میں قبائلی روزگار کی تلاش میں اپنے گاؤں چھوڑ کر باہر ہوتے ہیں، اسی وقت ایس آئی آر شروع کر دینا ان کی شناخت، شرکت اور سیاسی حق چھیننے کی منصوبہ بند کوشش ہے۔

بھوریا نے کہا کہ اس صورتحال کا سیدھا اثر ووٹر ناموں پر پڑ رہا ہے، کیونکہ گھروں میں رہ جانے والے بزرگ یا کم تعلیم یافتہ افراد نہ فارم بھر پا رہے ہیں نہ اعتراض داخل کر پا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، ’’یہ واحد عمل نہیں جس سے قبائلی متاثر ہو رہے ہیں بلکہ یہ پوری نسل کی نمائندگی کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں 70 فیصد سے زائد گاؤں نقل مکانی کے سبب خالی پڑے ہیں لیکن حکومت نے اس زمینی حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے اس عمل کو سروے کے اہم ترین مرحلے میں نافذ کر دیا۔ کانگریس نے مطالبہ کیا کہ قبائلیوں کے لیے ایک باقاعدہ نقل مکانی پالیسی بنائی جائے تاکہ ایسی مردم شماری، ووٹر جائزہ اور فلاحی اسکیموں کے عمل میں انہیں ناانصافی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

بھوریا نے مزید کہا کہ ایس آئی آر کے دوران قبائلیوں کے نام کاٹنے کا مطلب صرف ووٹ کا حق ختم ہونا نہیں بلکہ ان سرکاری اسکیموں اور راشن نظام سے محرومی بھی ہے جن پر ان کی روزمرہ زندگی کا انحصار ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں سہولیات پہلے ہی محدود ہیں اور ووٹر لسٹ میں نام ہٹنے سے ہزاروں خاندان بنیادی مدد سے بھی باہر ہو جائیں گے۔


بھوریا کے مطابق ایس آئی آر کے ذریعے اگر قبائلی ووٹروں کی تعداد کم درج ہو گئی تو مستقبل میں ان کی سیاسی نمائندگی متاثر ہوگی، کیونکہ یہی اعداد و شمار آئندہ ڈی لیمٹیشن اور ریزرویشن کے فیصلوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے قبائلی علاقوں کے جمہوری وزن کو مستقل طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔

سول جج امتحان 2022 کا حوالہ دیتے ہوئے بھوریا نے بتایا کہ مدھیہ پردیش میں 121 قبائلی نشستوں میں ایک بھی قبائلی امیدوار منتخب نہیں ہوا، جسے انہوں نے نظامی محرومی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2021 سے اب تک ایک بھی قبائلی کا انتخاب نہ ہونا انتہائی سنگین اور مشکوک صورتحال ہے، اس لیے امتحان کی اعلیٰ سطحی تحقیق اور اس کی منسوخی ضروری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔