کسی داستانِ پری سے بھی اعلیٰ ہے سونیا گاندھی کی داستانِ زندگی... ششی تھرور

سونیا گاندھی کی کہانی ہر سطح پر بے مثال ہے، داستانِ پری کے عناصر بھی اس میں موجود ہیں جو بے پناہ مشکلات کا سامنا کر اپنے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔

سونیا گاندھی، تصویر آئی اے این ایس
سونیا گاندھی، تصویر آئی اے این ایس
user

ششی تھرور

کوئی ناول نگار اگر سونیا گاندھی کی کہانی لکھنا چاہ رہا ہو تو اسے اس میں پریوں کی کہانی تلاش کرنے کے لیے معاف کیا جا سکتا ہے۔ ایک خوبصورت غیر ملکی ایک انجانے شہر میں آتی ہے اور خوبصورت سے راج کمار سے شادی کرتی ہے۔ وہ دونوں سالوں تک ساتھ میں خوشگوار ماحول میں رہتے ہیں۔ پھر ایک دن راج کمار کو دردناک حالات کے سبب مجبوراً ریاست کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے۔ وہ ان مشکل حالات سے دو چار ہوتا ہے جس سے پریشانیوں سے گزر رہی ریاست نبرد آزما ہوتی ہے، جس کے حالات الفاظ میں بیان نہ کیے جانے سکنے والے حالات میں دھوکہ سے کیے گئے اس کے قتل سے ہوتی ہے۔ رانی خاموش کو اوڑھ کر غم میں ڈوب جاتی ہے۔ لیکن دربار کے لوگ اس سے لگاتار منتیں کرتے ہیں کہ وہ واپس آئے اور ریاست کی قسمت کو اپنے ہاتھوں سے سنبھالے۔ پہلے خوشیاں، پھر جیت، پھر بدحالی اور پھر جیت- پوری طرح کہانی۔ مجھے اپنے اس مضمون کی شروعات ’ایک وقت کی بات ہے...‘ سے کرنی چاہیے تھی۔

اور پھر... کہانی میں ایک موڑ ہے۔ رانی کو جب زری سے سجے تھال میں راج مکٹ (تاج) دیا جاتا ہے، وہ اسے پہننے سے انکار کر دیتی ہے۔ وہ گدی کے پیچھے رہنا چاہتی ہے، عام انسانوں کے ساتھ چلتی ہے، لوگوں کو اکٹھا کرتی ہے، لیکن اقتدار کی طاقت کو اپنے تجربہ کار وزیروں کے پاس چھوڑ دیتی ہے۔ پریوں کی ایسی کہانی وہ نہیں لکھتے، اس خاتون کے لیے بھی نہیں جسے کبھی ایک نفرت کرنے والے ناقد نے ’آرباسانو کی سنڈریلا‘ بتلایا تھا۔


سونیا گاندھی کی کہانی ہر سطح پر بے مثال ہے۔ داستانِ پری جیسی بات۔ یہ انداز اس کے غیر معمولی پن کی سطح کو بمشکل ہی کرید پاتا ہے۔ لیکن ہمیں کون سی کہانی سنانی ہے؟ اس اطالوی کی جو کروڑوں ہندوستانیوں کے ملک کی سب سے طاقتور انسان بن گئی؟ یا اس کی جو سیاست میں آنا ہی نہیں چاہتی تھی، جس نے اپنی پارٹی کو ایسی حیرت انگیز انتخابی جیت دلائی جس کی پیشین گوئی اس کے چاہنے والے بھی نہیں کر سکے تھے؟ سہولیات کی عادی اس راج کمار کی جو ملک کے لیے قربانی کی علامت بن گئی؟ اس پارلیمانی لیڈر کی جس نے اپنے اپنائے گئے ملک کے اس اعلیٰ عہدہ کو لینے سے انکار کر دیا جسے اس نے اپنی محنت اور سیاسی ہمت سے حاصل کیا تھا؟ اس اصول پسند خاتون کی جس نے ظاہر کر دیا کہ مایوسی اور غیر مہذب والے پیشے میں رہتے ہوئے بھی کس طرح صحیح اقدار کے ساتھ کھڑے رہا جا سکتا ہے؟ سیاست میں پہلے پہل آئی اس انسان کی جو سیاست کے فن میں ماہر ہوئی، خود کی روش پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ پایا کہ بیشتر وہ اپنے تھکے ہارے مخالفین کی سوچ سے پرے درست ہو سکتی ہے؟

ان کے راز کو کھولنے کی کوششوں میں شامل کتابوں– ہسپانوی ناول نگار جیویر مورو کی سنسنی خیز ’دی ریڈ ساڑی‘ سے لے کر کانگریس لیڈر کے وی تھامس کی ’سونیا پرینکاری‘ تک– سونیا گاندھی کی کہانی یہ سب اور بھی بہت کہانیاں ہیں۔ 1991 میں اپنے شوہر کے قتل کے بعد ان کی جگہ لینے سے کیے گئے شروعاتی انکار، 1996 میں پارٹی کے لیے مہم چلانے کا فیصلہ اور 2004 کی ان کی انتخابی فتح اور عہدہ لینے سے منع کرنے والی حیرت انگیز قربانی، اور پھر پارٹی کی قیادت سنبھالتے ہوئے یو پی اے کی یکے بعد دیگرے دو حکومت تشکیل دینا، ان کی غیر معمولی سیاسی زندگی کے اہم لمحات کو فہرست بند کرنا آسان ہے!


ان کے غیر ہندوستانی ہونے سے اٹھے تنازعہ کو کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے جس پر ہندوستانی نژاد بہت ہنگامہ کرتے ہیں جب کہ ان کے چاہنے والے یہ بتلاتے ہیں کہ سونیا گاندھی جنم سے اطالوی اور عمل سے ہندوستانی ہیں۔ ہندوستانی قومیت کی علاقائیت کا ان کے خلاف 1990 کی دہائی کے وسط سے آخر تک اور 2004 میں پھر سے بڑھنا کئی معنوں میں اور خصوصاً انڈین نیشنل کانگریس سے متعلق ہونے پر اور عجیب ہو جاتا ہے، کیونکہ اس پارٹی کا قیام 1885 میں اسکاٹش نژاد سربراہ ایلن آکٹیوین ہیوم کی قیادت میں ہوتھا اور جس کے سب سے مشہور لیڈران (اور چنے گئے سربراہان میں) مکہ میں پیدا ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد، برطانیہ میں پیدا ہوئے نیلی سین گپتا اور آئرش خاتون اینی بیسنٹ شامل ہیں۔ اس سے بھی عجیب بات کانگریس کے سب سے عظیم لیڈر، مہاتما گاندھی کے نظریات کا براہ راست نامنظور کیا جانا ہے، کیونکہ انھوں نے اس پارٹی کو اس ہندوستان کی چھوٹی شکل بنانے کی کوشش کی جسے وہ لبرل اور متنوع دیکھتے تھے۔

پارٹی کے قائد عہدہ کی طرف بڑھتے وقت سونیا گاندھی نے اپنے بارے میں خود کہا تھا۔ ’’حالانکہ میری پیدائش غیر ملکی زمین پر ہوئی ہے، لیکن میں نے ہندوستان کو اپنا وطن منتخب کیا ہے۔ میں ہندوستانی ہوں اور آخری سانس تک ہندوستانی ہی رہوں گی۔ ہندوستان میرا مادر وطن ہے، مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہے۔‘‘ لیکن یہاں ایشو صرف سونیا گاندھی نہیں ہیں، اصل ایشو یہ ہے کہ کیا ہمیں پارٹیوں کے لیڈروں یا پھر ووٹروں کو یہ طے کرنے دینا چاہیے کہ کون سرٹیفائیڈ ہندوستانی ہونے لائق ہے۔ میں نے کئی بار یہ کہا ہے کہ ’ہم‘ اور ’وہ‘ کا دعویٰ قومی ذہنیت میں زہر بھرنے والی سب سے خراب سوچ ہے۔ کانگریس کی قیادت والے ہندوستان نے ہمیشہ ’تنوع میں اتحاد‘ کی بات کہی ہے، بہتوں کو گلے لگاتی ایک زمین والی سوچ۔ یہ زمین اپنے باشندوں پر کوئی کند ذہنی نہیں لادتی۔ آپ بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک ہو سکتے ہیں۔ آپ ایک ساتھ ایک اچھے مسلمان، ایک اچھے کیرالہ باشندہ اور ایک اچھے ہندوستانی ہو سکتے ہیں۔ آپ گوری صورت والی، ساڑی پہننے والی اور اطالوی بولنے والی ہو سکتی ہیں، اور آپ پلکڑ کی میری آممّا سے یا پھر پنجابی بولنے والی، شلوار قمیص پہننے والی گیہواں رنگ کی خاتون سے زیادہ پردیسی نہیں ہیں۔ ہمارا ملک ان دونوں طرح کے انسانوں والا ملک ہے، دونوں ہی ہم میں سے کچھ کے لیے یکساں طور سے ’پردیسی‘ ہیں لیکن ہم سب کے لیے یکساں طور پر ہندوستانی ہیں۔


ہمارے بانیان، آئین سازوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا، ہم نے ان خوابوں کو پنکھ دیئے ہیں۔ ہندوستانی شہریوں کو– چاہے وہ پیدائش سے ہندوستانی ہوں یا قومیت سے– ہندوستانیت کے خصوصی اختیارات کے لیے نااہل قرار دیئے جانے کا سلسلہ شروع کیا جانا صرف گہرا جھٹکا نہیں ہے، یہ ہندوستانی قومیت کے اصل عزائم کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ وہ ہندوستان جو ہم میں سے کچھ کو ملک سے الگ کرے گا، وہ بالآخر ہم سب کو اس ہندوستان سے الگ کر دے گا۔

لیکن یہ ایشو اب صرف تاریخی دلچسپی کے ہیں، کیونکہ ایک کے بعد ایک ہوئے کئی انتخابات میں ہوئی بحثوں نے اس مسئلے کو ختم کر دیا ہے اور سونیا گاندھی کی سیاسی قیادت کو پارٹی اور اتحاد قبول کر چکے ہیں۔ وہ 2014 میں ہوئے عام انتخابات کی شکست کے باوجود کانگریس اور یو پی اے دونوں کی تب تک بلامباحثہ لیڈر رہیں جب تک کہ انھوں نے 2017 میں خود سے کانگریس صدر عہدہ کو چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا، جسے 2019 میں انھیں پھر سے سنبھالنا پڑا۔


نظریات کے قومی مقابلے میں سونیا گاندھی نے کانگریس پارٹی کو کامیابی کے ساتھ از سر نو متعارف کیا ہے۔ ہندوستان کے خوشحال تنوع کے تئیں ان کے پیچیدہ عزائم ان کی پارٹی کو شناخت کی تقسیم والی سیاست کرتی، ذات و مذہب کے نام پر ووٹ مانگتی پارٹیوں سے الگ رکھتی ہے۔ کانگریس اجماعی قومی نظریہ رکھنے والی تنہا پارٹی بنی رہتی ہے۔ سماج کے نچلے حصے کے لوگوں کے تئیں ان کی ہمدردی نے یو پی اے کو ترقی پذیر ممالک کی تاریخ میں پہلی بار دوربیں اور فلاحی منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے ترغیب دی جس سے انھیں کھانے کا حق، روزگار کا حق، تعلیم کا حق حاصل ہوا۔ ساتھ ہی یہ بھی طے ہوا کہ شہری ترقی اور عوامی صحت ریاست کی ذمہ داریاں ہیں۔

بے حد ضروری منریگا جسے نریندر مودی بھی نہیں توڑ سکے، سونیا گاندھی کی دور اندیشی اور دردمندی کی مثال ہے۔ اطلاعات کا حق قانون جمہوریت اور حکومت کی جوابدہی کے تئیں ان کی سپردگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قانون سے حکومت ہند کے طریقہ کار میں شفافیت آئی ہے۔ جہاں این ڈی اے بغیر خود سے پوچھے کہ ہندوستان نے کس کے لیے شائن کیا ’انڈیا شائننگ‘ کی بات کرتا رہا اور بایاں محاذ ہر اس ترقی پذیر طریقے کی مخالفت جس سے معاشی ترقی کو شاید سبقت ملتی، سونیا گاندھی کی قیادت میں یو پی اے عزم کے ساتھ، ترقی اور سماجی انصاف دونوں کے لیے کام کرتا رہا ہے جسے کانگریس نے مجموعی ترقی نام دیا ہے۔ اس پورے عمل میں انھوں نے ایک مضبوط درمیانی راستہ (جسے کچھ لوگ سنٹر سے لیفٹ کہہ سکتے ہیں) کی بنیاد قائم کی ہے جس پر آنے والی نسلیں ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کر سکتی ہیں۔


2014 میں سونیا گاندھی نے ایک صحافی سے کہا تھا کہ ان کی زندگی کی سچی کہانی کو ان کی اس کتاب کا انتظار کرنا پڑے گا جسے وہ ایک دن لکھیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ میں لاکھوں لوگوں کی بات کہہ رہا ہوں کہ اب مزید انتظار نہیں کیا جاتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */