شاہجہاں پور بارڈر: 35 گاؤں والوں نے زرعی قوانین کے خلاف بڑی سڑک پر بسایا ’بڑا گاؤں‘

دہلی-جے پور شاہراہ پر 3 کلو میٹر احاطہ میں 35 دن سے جمع ہزاروں کسانوں نے ایک گاؤں بسا لیا ہے۔ ریواڑی اور الور کے آس پاس واقع گاؤں کے کسانوں کی تعداد یہاں لگاتار بڑھ رہی ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

دہلی کا سنگھو بارڈر اور ٹیکری بارڈر لاکھوں کی تعداد میں بلند حوصلوں کے ساتھ ڈٹے کسانوں کے لیے لگاتار سرخیوں میں ہے اور غازی پور بارڈر تو ’ٹکیت لینڈ‘ بن چکا ہے۔ دہلی کی ان سرحدوں پر کسان جہاں 51 دن سے سراپا احتجاج ہیں، وہیں اب شاہجہاں پور بارڈر پر بھی کسانوں کو جمع ہوئے 35 دن ہو گئے ہیں۔ یہاں مظاہرہ کا طریقہ سنگھو، تیکری اور غازی پور بارڈر سے کچھ مختلف اور خاص ہے، حالانکہ ان کا مطالبہ بھی وہی ہے جو سبھی جگہ مظاہرہ کر رہے کسانوں کا ہے۔ یعنی زرعی قوانین کی واپسی۔

شاہجہاں پور بارڈر سے مراد آپ راجستھان کا الور اور ہریانہ کا ریواڑی بارڈر سمجھ سکتے ہیں۔ دہلی سے یہ بارڈر 110 کلو میٹر دوری پر ہے۔ اسے ملک کے سب سے مصروف قومی شاہراہوں میں شمار کر سکتے ہیں، اور صاف لفظوں میں کہا جائے تو یہ ہریانہ اور راجستھان کا ’دہلی بارڈر‘ ہے اور ممبئی جانے کے لیے یہاں سے بڑی سڑک جاتی ہے۔ یہاں کے مقامی باشندے اس سڑک کو ’بڑی سڑک‘ کے نام سے پکارتے ہیں اور حقیقی معنوں میں یہ قومی شاہراہ 48 ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

دہلی-ممبئی-جے پور کے اس ہائیوے پر 3 کلو میٹر کی دوری میں ہزاروں کسان 35 دن سے جمع ہیں۔ دیہی عوام نے ہائی وے پر ہی گاؤں بسا لیا ہے۔ ریواڑی اور الور کے آس پاس کے گاؤں کے کسانوں کی تعداد یہاں لگاتار بڑھتی جا رہی ہے۔ وِدربھ کے مرحوم کسانوں کی بیوہ کا ایک گروپ بھی یہاں پہنچ چکا ہے۔ یہاں کا نظارہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ٹیکری اور سنگھو بارڈر پر اگر شہر بسا ہوا ہے، تو یہاں گاؤں بس گیا ہے۔ میوات کی اپنی ایک تاریخ رہی ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہاں بڑی تعداد میں فورس تعینات کی گئی ہے۔ بڑی سڑک کو کنٹینر سے بلاک کیا گیا ہے اور آر سی سی کی بڑی بڑی رکاوٹیں یہاں کھڑی کی گئی ہیں۔ ایک متعین دوری پر تین رکاوٹیں دی گئی ہیں۔

دراصل میوات کے آس پاس کے ان گاؤوں میں جو بھی کچھ ہوتا ہے، وہ پنچایت سے ہوتا ہے۔ گاؤں والوں کے یہاں آنے سے پہلے بھی 35 گاؤں کی پنچایت ہوئی تھی۔ اب ایسی پنچایتیں گاؤں-گاؤں ہو رہی ہیں اور تحریک کو بڑھانے کی بات چل رہی ہے۔ یہاں جاٹ مہاسبھا کے سربراہ راجا رام میل بتاتے ہیں کہ بارش، طوفان، سردی جیسے سارے بیریکیڈس (رکاوٹیں) ہم پار کر چکے ہیں، پتھر ہمارا راستہ نہیں روک پائیں گے۔ راجا رام کہتے ہیں کہ گاؤں بڑا ہو رہا ہے، روزانہ 12-10 نئی جھونپڑیاں تیار ہو جاتی ہیں۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

بڑی سڑک پر بسے بڑا گاؤں کی کشش کا مرکز راجستھان کے پھلیرا تحصیل سے آئے دو کسان نارائن لال اور گوپال جی مینا کی جوڑی ہے۔ گوپال اور نارائن گہرے دوست ہیں۔ نارائن 68 سال کے ہیں اور گوپال 72 سال کے۔ گوپال گونگے ہیں اور نارائن ہی ہیں جو ان کے اشاروں کو سمجھتے ہیں۔ جب گوپال کچھ کہتے ہیں تو ان کی بات نامہ نگاروں کو نارائن سمجھاتے ہیں۔ گوپال کے اشاروں کی تشریح کرتے ہوئے نارائن کہتے ہیں ’’یہ کہہ رہا ہے کہ گھر کہہ کر آیا ہے کہ یا تو قانون واپس، نہیں تو میں بھگوان کے پاس واپس۔ بیچ میں جنگ چھوڑ کر نہیں آؤں گا۔ ہماری فصلوں میں لگاتار گھاٹا ہو رہا ہے۔ کسان کا درد جان کون رہا ہے!‘‘

بات صاف ہے کہ کسان این ایچ-48 پر بھی کسی طرح دبنے اور جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ فورس نے جو ’تھری لیئر پروٹیکشن‘ لگا رکھا ہے، اسے اکھاڑنے کے لیے کسانوں نے جے سی بی منگوا لی ہے۔ راجا رام میل کہتے ہیں ’’جے سی بی اور کرین تو کسانوں کے گھر گھر میں ہے۔ یہاں تو شادیوں میں کچھ لڑکوں کو جہیز میں کار کی جگہ کسان ٹریکٹر اور جے سی بی دیتے ہیں۔ ہمیں کون سا کرایہ دینا ہے۔ مشینیں ہمارے کسان بھائی لے آئے ہیں۔ جب دہلی جانے کا اعلان ہوگا سب پتھر-کنٹینر اٹھا کر پھینک دیں گے۔ فورس ہمیں کیا کہے گی، سب ہمارے ہی تو بچے ہیں۔ ابھی ہمارے کچھ کسان بھائی جذباتی ہو کر 35 کلو میٹر تک چلے گئے تھے۔ وہاں ان پر آنسو گیس اور پانی کی بوچھار ہوئی تو وہیں بیٹھ گئے۔ اس جگہ کا نام دھاروہیڑا ہے۔ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چاہے چلیں ایک کوس ہی۔‘‘

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

ہزاروں کسان کے درمیان یہاں ایک میواتی کیمپ بھی ہے جس کا انتظام و انصرام مفتی سلیم ساکرس دیکھ رہے ہیں۔ یہاں ہر ایک گاؤں سے روزانہ 500 لیٹر دور آ رہا ہے۔ یہ کیمپ 24 گھنٹے مظاہرین کو چائے ناشتہ کرا رہا ہے۔ مفتی سلیم کہتے ہیں ’’ہم بھی کسان ہیں، سب ساتھی ساتھ لڑیں گے۔‘‘ جاٹ مہاسبھا کے بلبیر چھلر یہیں چائے پیتے ہوئے نظر آئے، وہ کہتے ہیں ’’ہاں ساتھی، ہم لڑیں گے۔‘‘

دھاروہیڑا میں اسی شاہراہ پر تقریباً 4 ہزار کسان بیٹھے ہیں۔ 15 دن پہلے یہ دہلی کی جانب بڑھے تھے اور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انھیں روکا گیا۔ یہاں گرامین کسان مزدور سمیتی کے ترجمان ستویر سنگھ بتاتے ہیں کہ 30 دسمبر کو یہاں کسانوں کو دہلی جانے سے روکنے کے لیے پوری طاقت لگا دی گئی۔ ہمارے کسان بھائیوں پر پانی پھینکا گیا، آنسو گیس کے گولے داغے گئے، دھواں بم پھینکا گیا۔ ستویر مزید بتاتے ہیں کہ وہ ایسے بم تھے جو پیر پر آ کر گرتے تھے اور پیروں کو زخمی کر دیتے تھے۔ ہمارے بہت سے کسان بھائی کے پیر زخمی ہو گئے۔ کسان تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن ہم کسان ہیں، دہشت گرد نہیں۔‘‘

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

سوراج انڈیا کے یوگیندر یادو بھی ان کسانوں کے رابطے میں لگاتار ہیں۔ وہ اکثر ان کسانوں کے درمیان گھومتے ہوئے نظر آ جاتے ہیں، اور یہاں امداد کرنے والے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے رہتے ہیں۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں 800 سے زیادہ بڑی انڈسٹریز کے دفاتر ہیں جن میں کئی تو ملٹی نیشنل ہیں۔ شاہراہ کے بند ہونے کے سبب کاروبار بھی بند ہے۔ کئی کلو میٹر تک ٹرکوں کی لمبی لائن اس کی گواہ ہے، جو یہیں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

سخت سردی کے اس موسم میں ان کسانوں کا سب سے بڑا سہارا الاؤ ہے۔ الاؤ انھیں طاقت دیتا ہے۔ رات بھر یہاں بیٹھنے والے جتیندر سنگھ کہتے ہیں ’’ہماری صبح کبھی تو آئے گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔