ہندوستان میں چیتوں کی آمد بن رہی سرخیاں، آئیے ذرا کچھ اہم پہلوؤں پر ڈالتے ہیں سرسری نظر

سنہ 2012 میں عدالت عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ چیتے کو نہیں بلکہ ایشیائی شیروں کو مدھیہ پردیش میں منتقل کیا جائے، حالانکہ 2020 میں چیتوں سے متعلق حکومت کی درخواست پر متفق ہو گئی۔

تصویر بشکریہ نیشنل ہیرالڈ
تصویر بشکریہ نیشنل ہیرالڈ
user

قومی آوازبیورو

نامیبیا سے 5 مادہ اور 3 نر چیتے ہفتہ کی صبح نامیبیا سے ایک خصوصی کارگو طیارے سے ہندوستان پہنچے۔ اس کے بعد انہیں ایئر فورس کے ہیلی کاپٹر میں مدھیہ پردیش لے جایا گیا، جہاں انھیں کونو وائلڈ لائف سینکچوئری میں وزیر اعظم نریندر مودی (جو آج اپنی 72ویں سالگرہ منا رہے ہیں) نے آزاد کر دیا۔ اس ’چیتا پروجیکٹ‘ کے لیے انڈین آئل کارپوریشن آئندہ پانچ سالوں میں 50 کروڑ روپے کا تعاون کرے گی۔

یہاں قابل ذکر ہے کہ چیتوں کی نقل مکانی، یعنی ہندوستان لانے کی کوششیں 1970 کی دہائی میں شروع ہو چکی تھیں، لیکن 2012 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے کی وجہ سے اس پیش رفت پر فل اسٹاپ لگ گیا۔ حالانکہ اس سے قبل کافی پیش رفت ہو چکی تھی۔ یہاں قابل ذکر یہ بھی ہے کہ تقریباً 75 سال قبل چیتا کو حکومت ہند نے ملک میں معدوم قرار دے دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چیتوں کی ہندوستان آمد خوب سرخیاں بن رہی ہیں۔


ایران میں اس وقت تقریباً 30 ایشیائی چیتے زندہ موجود ہیں۔ نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ مختلف وجوہات کی بناء پر معدوم ہونے کے دہانے پر ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران میں چیتا کے چھ ماہرین کو 2016 میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ چیتا دیگر بڑی بلیوں جیسے جانور کے مقابلے زیادہ نرم مزاج ہوتے ہیں اور کمزور ترین جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ جب بھی وہ بکریوں اور دوسرے پالتو جانوروں کو مارتے ہیں، گاؤں والے انہیں مارنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ اس طرح انہیں اپنے لیے بڑے جنگلات اور غیر آباد علاقوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ ہندوستان میں بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا ایک بڑا طبقہ چیتا کی نقل مکانی کے منصوبے پر شکوک و شبہات کا شکار ہے۔


بہرحال اس متنازعہ چیتا پروجیکٹ سے متعلق کئی سوالات لوگوں کے ذہن میں ہیں۔ آئیے 10 نکات میں انھیں سمجھنے کی کوشش کریں۔

  1. سپریم کورٹ نے گجرات سے ایشیائی چیتوں کو منتقل کرنے کا حکم صادر کیا تھا جہاں 600 زندہ شیر موجود ہیں۔ لیکن گجرات حکومت کی مزاحمت کی وجہ سے دوسرے مقامات پر ان کی منتقلی نہیں ہو سکی۔

  2. نامیبیا سے 8 چیتوں اور جنوبی افریقہ سے 12 چیتوں کو قرنطینہ میں ایک ایک ماہ گزارنے کے بعد مدھیہ پردیش کے کونو ریزرو میں چھوڑے جانے کا منصوبہ ہے، جن مٰں سے نامیبیا کے 8 چیتے آج کونو پہنچ گئے۔

  3. چیتا کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ایک ’ہائی رسک‘ منصوبہ ہے اور عوام کے ساتھ ساتھ دیگر بڑی بلیوں جیسے جانوروں کے ہاتھوں چیتے بڑی تعداد میں ہلاک ہو سکتے ہیں۔

  4. ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر اس منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے تو 500 سے 1000 چیتوں کو ہندوستان کے مختلف سیکنچوئری یا پارکوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔

  5. ماہرین اس منصوبے کے قابل عمل ہونے پر منقسم ہیں کیونکہ ہندوستان کی آبادی 1947 کے بعد سے کئی گنا بڑھ گئی ہے، جب آخری ایشیائی چیتوں کو مارا گیا تھا (جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے)۔ شکوک و شبہات اس بات کو لے کر بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ چیتوں کی نقل مکانی کی کوئی سائنسی وجوہات نہیں ہیں۔ ہاں، یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ یہ اسکیم لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والی ہے۔

  6. لائے گئے تمام چیتوں کے پاس ریڈیو کالر ہوں گے تاکہ ان کی نقل و حرکت کو ہر وقت ٹریک کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں ماہرین نے اعلیٰ لاگت کو لے کر بھی کچھ شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

  7. ماہرین ماحولیات، جنہوں نے حیاتیاتی تنوع کو فروغ دینے کی ضرورت کے تحت اس منصوبے کی حمایت کی ہے، ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ جنوبی افریقہ، ملاوی اور نامیبیا جیسے افریقی ممالک کی طرح چیتا ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینے میں بھی مدد کرے گا۔

  8. اگرچہ اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ آخری تین چیتوں کو 1947 میں کوراوی کے مہاراجہ نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا (جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے)، پھر بھی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ 1947 سے پہلے بھی ہندوستان میں حاکموں نے شکار کے لیے چیتے درآمد کیے تھے۔ کچھ کو پالتو جانوروں کے طور پر بھی رکھا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔