راجستھان انتخاب: پرینکا گاندھی نے جھنجھنو میں عوام کو ’مذہب کی سیاست‘ سے کیا آگاہ

پرینکا گاندھی نے کہا کہ جو مذہب کی سیاست کرتے ہیں ان کی جوابدہی ختم ہو گئی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ انتخاب کے وقت مذہب کی بات کر لو، ذات کی بات کر لو، سب کو ڈرا دو اور ووٹ مل جائیں گے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے آج راجستھان اسمبلی انتخاب کے پیش نظر جھنجھنو میں عظیم الشان ریلی سے خطاب کیا۔ انھوں نے جھنجھنو کی تاریخی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے عوام سے کہا کہ ’’آپ کی یہ جو مٹی ہے، اس نے ملک کو بہت کچھ دیا ہے۔ شیش رام اولا جی جیسے لیڈران اور لاتعداد شہید فوجی اس مٹی سے نکلے ہیں اور آپ نے اسی زمین سے آزادی کی شمع روشن کی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’1857 سے لے کر آج تک آپ کی زمین کے بہادر لوگ اس ملک کے لیے شہید ہونے کو تیار ہیں۔ یہاں کی ماؤں کو میرا سلام، سب سے زیادہ ریٹائرڈ فوجی جھنجھنو میں ہی ہیں اور سب سے زیادہ فوجی جو سرحد پر آج بھی تعینات ہیں وہ بھی جھنجھنو سے ہیں۔ برلا، ڈالمیا، سنگھانیا، کھیتان، پیرامل، بجاج جیسے بڑے بڑے نام اور بڑے بڑے صنعت کار آپ نے ملک کو دیے ہیں۔‘‘

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ یہ راجستھان بہادروں کی سرزمین ہے۔ آپ کو فخر ہونا چاہیے اپنی ریاست پر، آپ نے ہمارے ملک کو کتنا کچھ دیا۔ یہاں کی محنتی عوام، دن رات کام کرنے والے کسان، آپ نے ہی اس ملک کی تعمیر کی ہے، آپ نے ہی اس ریاست کو آگے بڑھایا ہے۔ آپ کی تاریخ بہادری اور طاقت کی ایک ایسی تاریخ ہے جس پر پورے ملک کو فخر ہے۔ ہندوستان کی جو گنگا جمنی تہذیب ہے، جھنجھنو بھی اس کی مثال ہے۔ یہاں چنچل ناتھ جی کے ٹیلے پر قوالی بھی سنائی دیتی ہے اور قمرالدین جی کی درگاہ پر بھجن بھی۔


ریلی میں پرینکا گاندھی نے مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ انھوں نے کہا کہ آج کی حکومت صرف دو صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ ان کے جو متر ہیں، ان کو ملک کی پوری ملکیت سونپی جا رہی ہے۔ ملک کے بندرگاہ، ملک کے ایئرپورٹ، ملک کے جتنے بھی بڑے بڑے پی ایس یو تھے، سب انھیں سونپے جا رہے ہیں۔ عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے پرینکا نے کہا کہ ’’ایک ایسی حکومت جو روزگار پیدا ہی نہیں کر رہی ہے، تو وہ آپ کے مستقبل کو کیسے سنوارے گی؟ ایک تو یہاں روزگار کا ذریعہ ختم ہو گیا اور دوسری طرف روزگار کے سب سے بڑے ذریعہ زراعت پر بھی حملہ کر دیا گیا۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ کسان تحریک شروع کی گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایک ایسی پالیسی آ رہی تھی جو کسانوں کو کچلنے والی تھی۔ اسی طرح سے ہر طبقہ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’آج خواتین کی بات کی جا رہی ہے، لیکن خاتون ریزرویشن کی بات سب سے پہلے کس نے کی، سالوں پہلے کانگریس پارٹی نے ہی یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ خواتین کو ریزرویشن کس نے دیا پنچایتوں میں، سب سے پہلے کانگریس پارٹی نے ہی دیا۔ انھوں نے (مرکزی حکومت) تو ایسا قانون پاس کیا ہے جو 10 سالوں تک نافذ نہیں ہوگا۔ کیا کریں گے ہم اس ریزرویشن کا اگر 10 سال ہمیں رکنا پڑے گا۔‘‘

پرینکا گاندھی نے کہا کہ آج بے روزگاری اس ملک میں 45 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ جہاں ہجاں سے روزگار پیدا ہونا تھا، وہ سبھی شعبے تو ختم کر دیے گئے۔ جو چھوٹے کاروبار تھے، چھوٹی دکانیں تھیں، جہاں سے روزگار بنتے تھے انھیں نوٹ بندی نے تباہ کر دیا اور کئی کی حالت جی ایس ٹی تھوپ کر خراب کر دی گئی۔ اب ہر چیز پر جی ایس ٹی، سب کچھ مہنگا ہو گیا۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ راجستھان کی اشوک گہلوت حکومت کو مہنگائی راحت کیمپ لگانے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ یہاں تو حکومت نے نہ صرف مہنگائی راحت کیمپ کا انتظام کیا ہے بلکہ علاج کے لیے 25 لاکھ روپے کا بیمہ ہے جس سے مفت علاج یقینی ہو پایا ہے۔ جب میں دوسری ریاستوں میں جاتی ہوں اور یہ بات کہتی ہوں تو سبھی حیران رہ جاتے ہیں۔ دوسری ریاستوں میں اگر کوئی بیمار پڑتا ہے تو دل بالکل ڈوب جاتا ہے، گھبراہٹ بڑھ جاتی ہے کہ علاج کس طرح ہوگا۔


پرینکا گاندھی نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا آپ ایسا لیڈر چاہتے ہین جو صرف اپنا ہی مستقبل روشن کرے؟ اپنے اقتدار میں رہنے کے لیے کام کرتا رہے اور آپ کے بارے میں فکر نہ کرے؟ انتخاب آئے تو مذہب کی باتیں شروع کر دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو مذہب کی سیاست کرتے ہیں ان کی جوابدہی ختم ہو گئی ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ انتخاب کے وقت مذہب کی بات کر لو، ذات کی بات کر لو، سب کو ڈرا دو کہ ہم مذہب کی حفاظت نہیں کریں گے تو ایسا ہو جائے گا، ویسا ہو جائے گا۔ اور پھر انھیں ووٹ مل جائیں گے۔ ایسے سیاستداں سمجھ گئے ہیں کہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، صرف مذہب کا نام لیجیے، ذات کا نام لیجیے، انتخاب کے وقت ووٹ بٹورتے جائیے۔ لیکن اس سلسلہ کو بند کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ جب تک آپ طے نہیں کریں گے کہ جو لیڈر ہے وہ کام کی بات کرے، وہ کام کر کے دکھائے  اور اسی کام کو دیکھ کر آپ کا ووٹ جائے، تب تک یہ سیاست چلتی رہے گی۔

کانگریس جنرل سکریٹری نے لوگوں سے کہا کہ ’’میں یہاں ووٹ مانگنے نہیں، آپ کو بیدار کرنے آئی ہوں۔ میں یہ مانگنے آئی ہوں کہ اب انتخاب کا وقت ہے، سمجھ لو کہ دھیان بھٹکانے والا کون ہے اور کام کرنے والا کون ہے۔ مودی جی تو آ کر کہتے ہیں کہ مجھے ووٹ دو۔ لیکن مودی جی تھوڑی بننے جا رہے ہیں آپ کے وزیر اعلیٰ۔ وہ تو وزیر اعظم ہیں۔‘‘


آخر میں پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’میں ایک شہید کی بیٹی ہوں، ایک شہید کی پوتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ اس کا مطلب کیا ہے، اور میں جانتی ہوں کہ جتنے بھی کنبے ہیں جھنجھنو میں ہیں، جنھوں نے اپنا بیٹا یا بیٹی اس ملک پر قربان کیا ہے، میں جانتی ہوں کہ ان پر کیا گزرتی ہوگی۔ اسی لیے میں کہتی ہوں کہ ایسی حکومت کا انتخاب کرو جو آپ کا احترام کرے۔ جتنی عقیدت آپ لیڈروں کے تئیں رکھتے ہیں، اتنی عقیدت لیڈران کو آپ سے بھی ہونی چاہیے۔ اگر لیڈر بھٹک رہا ہے تو آپ کو سبق سکھانا پڑے گا۔ یہ آپ کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو پوری طرح سے 25 (نومبر) تاریخ کو نبھائیے۔ میری باتوں کو یاد رکھیے، بھولیے نہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔