پنجاب میں 4 دہائیوں کی بدترین تباہی، 1900 سے زائد گاؤں زیرِ آب، لاکھوں ایکڑ فصلیں برباد، 43 افراد جان بحق

پنجاب میں دریاؤں کی طغیانی اور ڈیموں سے پانی چھوڑنے کے بعد شدید سیلاب نے 1900 گاؤں متاثر کیے، 4.38 لاکھ ایکڑ فصلیں ڈوب گئیں، 43 افراد جاں بحق ہوئے، ریسکیو آپریشن جاری ہیں

<div class="paragraphs"><p>پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ گاؤں کا منظر / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

پنجاب اس وقت گزشتہ چار دہائیوں کی بدترین قدرتی آفت کا سامنا کر رہا ہے۔ راوی، بیاس اور ستلج جیسی اہم ندیوں میں آنے والی شدید طغیانی نے ریاست میں بھیانک تباہی مچا دی ہے۔ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے 23 میں سے تقریباً تمام اضلاع اس آفت کی زد میں آ چکے ہیں۔ ریاست کے 1902 گاؤں مکمل طور پر زیرِ آب آ گئے ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں اور بڑے پیمانے پر فصلوں اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے۔

فصلوں کو ہونے والا نقصان اندازوں سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ تقریباً 1.71 لاکھ ہیکٹیئر اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، مگر تازہ رپورٹ کے مطابق یہ نقصان 4 لاکھ 38 ہزار 40 ایکڑ تک جا پہنچا ہے۔ کسانوں کے مطابق تباہ شدہ کھیت کئی برس تک دوبارہ قابلِ کاشت نہیں رہیں گے۔ ریاست کے مختلف حصوں میں فصلیں بہہ جانے سے کسانوں کی محنت رائیگاں ہو گئی ہے اور دیہی معیشت کو سخت جھٹکا لگا ہے۔

انسانی جانوں کا نقصان بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ شدید بارشوں کے نتیجے میں آنے والی بربادی کے دوران مزید چھ افراد جان سے گئے ہیں، جس کے بعد اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 43 ہو گئی ہے۔ کئی دیہات میں گھروں کے منہدم ہونے، بجلی کی فراہمی بند ہونے اور پینے کے پانی کی قلت نے متاثرہ آبادی کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔

سب سے زیادہ تباہی گورداس پور ضلع میں ریکارڈ کی گئی ہے، جہاں تقریباً ایک لاکھ ایکڑ فصلیں برباد ہو گئی ہیں اور 329 گاؤں شدید متاثر ہوئے ہیں۔ امرتسر، فیروزپور اور فاضلکہ میں بھی حالات انتہائی خراب ہیں اور ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر ریاست میں 3 لاکھ 84 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے 20 ہزار سے زائد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔


ریاست میں 196 عارضی ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جہاں متاثرین کو پناہ دی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ کیمپ بڈھنالا میں لگائے گئے ہیں، جہاں تقریباً 6755 متاثرین نے پناہ لی ہے۔ ریلیف اور ریسکیو آپریشن میں 31 این ڈی آر ایف ٹیمیں، فوجی دستے، فضائیہ کے یونٹس، 123 کشتیاں اور 30 سے زیادہ ہیلی کاپٹر شریک ہیں۔ اس کے علاوہ بارڈر سکیورٹی فورس (BSF) بھی امدادی سرگرمیوں میں تعاون کر رہی ہے۔

پٹیالہ ضلع میں گھاگر ندی کے اطراف ہائی الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ حکومتی حکم کے مطابق ہر متاثرہ گاؤں میں ایک گزیٹڈ افسر تعینات کیا گیا ہے تاکہ ریلیف اور بچاؤ کے اقدامات مؤثر انداز میں جاری رہ سکیں۔

کسانوں کے لیے معاوضے کا مسئلہ اس وقت سب سے بڑا سوال بن چکا ہے۔ ریاست کے وزیر زراعت گرمیت سنگھ خودیان نے مرکزی وزیر زراعت شیو راج سنگھ چوہان سے اپیل کی ہے کہ فی ایکڑ معاوضہ بڑھا کر 50 ہزار روپے کیا جائے کیونکہ فی الحال 6800 روپے فی ایکڑ معاوضہ کسانوں کے نقصان کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔ انہوں نے 8 ہزار کروڑ روپے کے آر ڈی ایف اور ایم ڈی ایف فنڈز فوری جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ادھر وزیراعلیٰ بھگونت مان نے وزیراعظم سے اپیل کی ہے کہ پنجاب کو 60 ہزار کروڑ روپے کے زیرِ التوا مرکزی فنڈز فوری فراہم کیے جائیں تاکہ متاثرہ کسانوں اور عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔

ریاستی حکومت اور مرکزی ایجنسیاں مشترکہ طور پر ریلیف اور ریسکیو آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں، مگر متاثرہ خاندانوں کی بحالی ایک بڑے چیلنج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کسانوں اور عام شہریوں کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے یہ تباہی پنجاب کی معیشت اور زراعت پر طویل مدتی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔