پرینکا گاندھی نے خواتین کے لیے 40 فیصد ریزرویشن کو وقت کی ضرورت قرار دیا، کئی جذباتی لمحوں کو کیا یاد

کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے پریس کانفرنس میں واضح لفظوں میں کہا کہ ’’ہمارا عزم ہے کہ خواتین اتر پردیش کی سیاست میں پوری طرح سے شراکت دار بنیں۔‘‘

پرینکا گاندھی، تصویر @INCUttarPradesh
پرینکا گاندھی، تصویر @INCUttarPradesh
user

قومی آوازبیورو

کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی 19 اکتوبر کو لکھنؤ میں جب پریس کانفرنس کر رہی تھیں، تو خواتین میں ایک الگ طرح کا جوش نظر آ رہا تھا۔ پرینکا گاندھی نے جب یو پی اسمبلی انتخاب کے پیش نظر 40 فیصد ٹکٹ خواتین کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا تو خواتین کا جوش مزید بڑھ گیا ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران پرینکا نے اپنے گزشتہ تجربات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ خواتین کے لیے یہ 40 فیصد ریزرویشن کیوں ضروری ہے۔ اس دوران انھوں نے کئی جذباتی لمحات کا بھی تذکرہ کیا۔ یہاں ’قومی آواز‘ کے قارئین کے لیے پیش ہے پرینکا گاندھی کے خطاب کا مکمل اقتباس، جس کو پڑھ کر اندازہ ہوگا کہ انھوں نے دل کو چھو لینے والی باتیں خواتین کے سامنے رکھی ہیں۔

نمسکار!

آپ کو تھوڑا انتظار کرایا، اس کے لیے معافی چاہتی ہوں۔

آج میں ہماری پہلی پرتگیا (عزم) کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ ہم نے طے کیا ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخاب میں اتر پردیش میں کانگریس پارٹی 40 فیصد ٹکٹ خواتین کو دے گی۔

ہمارا عزم ہے کہ خواتین اتر پردیش کی سیاست میں پوری طرح سے شراکت دار بنیں۔ یہ فیصلہ ہم نے کس لیے کیا... جب میں 2019 کے انتخاب میں اتر پردیش تشہیر کے لیے آئی تھی، تو الٰہ آباد یونیورسٹی کی کچھ لڑکیاں مجھ سے ملیں اور انھوں نے مجھے بتایا کہ کس طرح سے یونیورسٹی کے ضوابط، قوانین، ہوسٹل کے قوانین، لڑکوں کے لیے اور ان کے لیے الگ الگ تھے۔ یہ فیصلہ ان کے لیے لیا ہے۔

یہ فیصلہ میں نے اس خاتون کے لیے لیا ہے جس نے گنگا یاترا کے دوران میری کشتی کو واپس ساحل پر بلا کر کہا کہ میرے گاؤں میں اسکول نہیں ہے۔ میں اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتی ہوں۔ یہ فیصلہ اس لڑکی، پریاگ راج کی ایک لڑکی ’پارو‘ کے لیے لیا گیا ہے جس میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ ’’دیدی بڑی ہو کر میں لیڈر بننا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ فیصلہ اس کے لیے ہے، یہ فیصلہ چندولی میں جو شہید ائیرفورس کا پائلٹ ہے، ان کی بہن ’ویشنوی‘ کے لیے ہے، جس نے مجھے کہا کہ ان کے بھائی شہید ہو گئے ہیں، لیکن وہ پائلٹ بننا چاہتی ہے۔ یہ فیصلہ اناؤ کی اس لڑکی کے لیے ہے جس کو جلایا گیا، مارا گیا۔ اس کی بھابھی کے لیے ہے جو آج بھی جدوجہد کر رہی ہے، اس کے اور اس کی 9 سال کی بھابھی کی بیٹی کے لیے ہے، جس کو اسکول میں دھمکایا گیا تھا۔ یہ فیصلہ ہاتھرس کی اس ماں کے لیے ہے جس نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ اس کو انصاف چاہیے، اس کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔

یہ فیصلہ رمیش کشیپ کی بیٹی کے لیے ہے۔ اس کا نام بھی ’ویشنوی‘ ہے، جو بڑی ہو کر ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لکھیم پور میں ایک لڑکی مجھ سے ملی۔ میں نے اس سے پوچھا کیا بننا چاہتی ہو بڑی ہو کر، اس نے کہا وزیر اعظم بننا چاہتی ہوں۔ اس کے لیے ہے یہ فیصلہ۔ یہ فیصلہ لکھنؤ کی ایک بستی میں ملی ’لکشمی‘ والمیکی کے لیے ہے جو آئی ٹی آئی پڑھی ہے، بی اے کیا ہے اس نے، کمپیوٹر پاس کیا ہے، آج تک اسے ملازمت نہیں ملی ہے۔ یہ فیصلہ اس کے لیے ہے۔ یہ فیصلہ سونبھدر میں اس خاتون کے لیے ہے جس کا نام ’قسمت‘ ہے، جس نے اپنے لوگوں کے لیے آواز اٹھائی، جدوجہد کیا اور انصاف مانگا۔

یہ فیصلہ اتر پردیش کی ہر ایک خاتون کے لیے ہے، جو بدلاؤ چاہتی ہے، جو انصاف چاہتی ہے، جو اتحاد چاہتی ہے۔ جو چاہتی ہے کہ اس کی ریاست آگے بڑھے۔ میں آپ سب سے کہنا چاہتی ہوں، آپ سماجی خدمت گار ہیں، آپ استاد ہیں، آپ ایک نوجوان خاتون ہیں، جو اپنا مستقبل بنانا چاہتی ہیں۔ آپ پریس میں ہیں، اگر آپ بدلاؤ چاہتی ہیں، تو انتظار مت کیجیے۔ آپ کی حفاظت کوئی نہیں کرنے والا، سب باتیں کرتے ہیں، حفاظت کرنے کا جب وقت آتا ہے تو حفاظت ان کی ہوتی ہے جو آپ کو کچلتے ہیں۔ آج اقتدار کا نام یہ ہے کہ آپ کھلے عام پوری پبلک کے سامنے لوگوں کو کچل سکتے ہیں، یہ اقتدار بن گیا ہے، یہ غلط ہے۔ نفرت کا بول بالا ہے، یہ غلط ہے۔ اس کو خواتین بدل سکتی ہیں۔ خواتین اس لیے بدل سکتی ہیں کیونکہ رحم کا جذبہ، خدمت کا جذبہ اور عزائم، قوت سب سے زیادہ خواتین میں ہیں۔ میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں کہ سیاست میں آؤ۔ مجھ سے کندھے سے کندھا ملاؤ۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کی جدوجہد کیا ہیں۔ میری پریس کی دوست یہاں ہیں۔ میں جانتی ہوں، میں آپ کو دیکھتی ہوں صبح سے شام تک آپ کیسے دوڑتی ہیں، کن حالات میں۔

جب سیتا پور میں بیچ رات میں اندھیرا تھا، مجھے گھیر لیا پولیس اہلکار نے، خاتون پولیس اہلکار تھی، مجھے گھیرا، مجھ سے لڑی، میں بھی نبرد آزما ہو گئی ان سے۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے جیپ میں بٹھایا اور اندھیری رات میں صرف میں، وہ دونوں کانسٹیبل۔ مجھے سیتا پور کے پی اے سی کمپاؤنڈ میں لے گئے۔ ایک کا نام مدھو تھا، ایک کا نام پوجا۔ یہ فیصلہ ان کے لیے بھی ہے۔ کیونکہ میں سمجھی کہ 4 بجے صبح تک ڈیوٹی پر تھی۔ ان کی ایک افسر، جن کی پوسٹنگ سیتاپور میں تھی، لیکن جن کی بوڑھی ماں تنہا نوئیڈا میں رہتی ہے۔ کتنی جدوجہد کرنی ہوتی ہے خواتین کو۔ کون کرے گا یہ جدوجہد آپ کے ساتھ، اگر آپ متحد نہیں ہوں گی؟ اگر ملک کو ذات پات اور مذہب کی سیاست میں سے نکال کر ترقی کی سیاست کی جانب لے جانا ہے، اگر ملک کو سالمیت کی سیاست کی طرف لے جانا ہے، شراکت داری کی سیاست کی طرف لے جانا ہے، تو خواتین کو آگے بڑھنا پڑے گا۔ آپ کو خود یہ کام کرنا پڑے گا۔ آگے بڑھیے۔

میں گزارش کرتی ہوں آپ سے، ہم نے درخواست مانگے ہوئے ہیں، ہر اسمبلی سیٹ کے لیے۔ یہ اگلے مہینے کی 15 تاریخ تک کھلا رہے گا، خصوصاً میری بہنوں کے لیے۔ جو لڑنا چاہتی ہیں، آؤ میرے پاس آؤ، آپ کو موقع ملے گا، ہم بھی اس ملک کی سیاست، اس ریاست کی سیاست بدلیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */