پلینری اجلاس: کانگریس نے پیش کی ملک کو رفتار دینے والی معاشی قرارداد، مودی حکومت کی 9 سالہ ناکامیوں کا بھی تذکرہ

معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کانگریس کا مشورہ ہے کہ ’’شہری غریبوں کے لیے سیکورٹی فراہم کرنے کے مقصد سے منریگا کی طرح ہی ایک شہری نریگا منصوبہ کی شروعات ہونی چاہیے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>کانگریس پلینری اجلاس</p></div>

کانگریس پلینری اجلاس

user

قومی آوازبیورو

کانگریس کا 85واں پلینری اجلاس چھتیس گڑھ کے رائے پور میں چل رہا ہے۔ آج اس اجلاس کے دوسرے دن کانگریس نے معاشی امور پر اپنے عزائم کا مسودہ پیش کیا۔ اس قرارداد میں مجموعی طور پر 29 نکات پیش کیے گئے ہیں جس میں ہندوستان کی موجودہ معاشی حالت اور اس کو بہتر بنانے کے طریقوں پر بات کی گئی ہے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’’کانگریس واضح طور پر مانتی ہے کہ گزشتہ 9 سال مودی حکومت کی ناکامیوں، خطرناک غلطیوں اور خامی سے پُر ترجیحات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی ناکامی معیشت سے متعلق ان کی بدانتظامی ہے۔ کورونا متاثرہ سالوں سے پہلے ہی نوٹ بندی اور خامی والی جی ایس ٹی کو جلد بازی میں نافذ کرنے کے سبب معاشی گراوٹ شروع ہو گئی تھی۔ نتیجتاً معیشت، جو مالی سال 14-2013 میں 6.9 فیصد کی شرح سے بڑھی تھی، مالی سال 20-2019 میں گھٹ کر 3.7 فیصد رہ گئی۔‘‘

قرارداد کے مسودہ میں اپنے عزائم کا تذکرہ کرتے ہوئے کانگریس کہتی ہے کہ ’’1991 میں کانگریس کی قیادت والی حکومت نے لبرلائزیشن کے ایک نئے دور کی شروعات کی تھی۔ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک نے دولت بنانے، نئے کاروباروں اور صنعتوں، ایک عظیم متوسط طبقہ، لاکھوں ملازمتوں، تعلیم و طبی دیکھ بھال، برآمدگی کے شعبہ میں زبردست فائدہ حاصل کیا۔ یو پی اے حکومت کے 10 سالوں کے دوران 27 کروڑ لوگوں کو غریبی سے باہر نکالا گیا۔ 30 سالوں کے بعد، ہم مانتے ہیں کہ عالمی اور گھریلو ترقی پر غور کرتے ہوئے، معاشی پالیسیوں کی از سر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔ معاشی پالیسیوں کی تشکیل نو ایک کھلی بازار والی معیشت، دولت پیدا کرنے کی حمایت، امیروں و متوسط طبقہ اور غریبوں کے درمیان نابرابری کو کم کرنے اور پرائیویٹ و پبلک سیکٹر کی صنعتوں کے ذریعہ چلنے والی ترقی میں تیزی لانے کے لیے ہونی چاہیے۔‘‘


معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کانگریس کا یہ بھی مشورہ ہے کہ ’’شہری غریبوں کے لیے سیکورٹی فراہم کرنے کے مقصد سے منریگا کی طرح ہی ایک شہری نریگا منصوبہ کی شروعات ہونی چاہیے۔ بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور کم ایل ایف پی آر کے ساتھ، نئے لیبر قانون اگر نافذ کیے جاتے ہیں تو مزدوروں کے حقوق پر منفی اثر پڑے گا۔ ہم مانتے ہیں کہ مزدوروں نے ہمارے ملک کو بنایا ہے، ہمیں ان کے حقوق کو محفوظ کرنا چاہیے اور انھیں انصاف فراہم کرنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، شہری کار اور کووڈ-19 وبا کی توسیع کے ساتھ ’کام کی نوعیت‘ بھی بدل رہی ہے۔ نیتی آیوگ کے پاس دستیاب اعداد و شمار کے مطابق جون 2022 تک تقریباً 77 لاکھ لوگ گگ ورکرس کی شکل میں کام کر رہے ہیں اور 30-2029 تک ان کی تعداد تین گنی ہونے کا امکان ہے۔ ہم ان کے حقوق کی حفاظت کرنے اور انھیں سماجی تحفظ فراہم کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔‘‘

ہندوستان میں معاشی طور پر بڑھتی نابرابری کا تذکرہ بھی قرارداد میں موجود ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ ’’ہندوستان میں بڑھتی نابرابری نے کئی حقائق ظاہر کر دیے ہیں۔ ہمارے جیسے بڑے اور متنوع سماج میں، بڑھتی ہوئی آمدنی اور دولت کی نابرابری ایک سماجی رخنہ بن جائے گا۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں سب سے دولت مند 5 فیصد لوگوں کے پاس ملک کی مجموعی ملکیت کا 60 فیصد حصہ ہے۔ جبکہ نیچے کی 50 فیصد آبادی کے پاس ملکیت کا محض 3 فیصد حصہ ہے۔ اس کے برعکس مجموعی جی ایس ٹی کا تقریباً دو تہائی (64.3 فیصد) آبادی کے نیچے کے 50 فیصد سے آتا ہے اور ملک کے سب سے امیر 10 فیصد سے محض 4-. فیصد آتا ہے۔‘‘ کانگریس کا مزید کہنا ہے کہ ’’آمدنی اور دولت کی نابرابری کے ساتھ ساتھ جنسی نابرابری بھی فکر کا موضوع ہے۔ ورلڈ اکونومک فورم کے ذریعہ جاری 2022 کے لیے گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں ہندوستان کو 146 ممالک میں 135واں مقام دیا گیا ہے۔ ہمیں بڑھتی نابرابریوں، خصوصاً آمدنی اور دولت، جنسی نابرابری اور علاقائی نابرابری پر توجہ دینی چاہیے۔‘‘


لگاتار بڑھتی مہنگائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کانگریس نے کہا ہے کہ ’’کانگریس پارٹی کو لوگوں کی فلاح کے لیے پرعزم رہنا چاہیے۔ اگر قیمتیں مستحکم رہیں گی، ٹیکس مناسب ہوں گے اور گڈس اینڈ سروسز کے استعمال کے لیے لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ ہوگا تبھی ٹھیک طرح سے ان کی ترقی ہو پائے گی۔ لیکن مودی حکومت کا ٹریک ریکارڈ اس کے بالکل برعکس رہا ہے۔ مثلاً نوٹ بندی، پٹرول اور ڈیزل پر زیادہ ٹیکس اور اس سال جنوری میں خوردہ مہنگائی شرح بڑھ کر 6.52 فیصد ہونا۔ ڈاٹا پر نظر ڈالیں تو مشترکہ بنیاد پر زیادہ تر مہینوں میں عام طور پر استعمال ہونے والی ضروری چیزوں کی مہنگائی سی پی آئی انفلیشن سے زیادہ رہی ہے۔ جنوری 2023 میں اناج اور اناج سے بنی مصنوعات کی مہنگائی 16.12 فیصد تھی، جبکہ انڈا، دودھ، گوشت اور مچھلی کے لیے یہ 9-6 فیصد کے درمیان تھی، کپڑوں اور جوتوں کی مہنگائی میں 9.08 فیصد کا اضافہ ہوا۔‘‘

مرکزی حکومت پر لگاتار بڑھتے قرض کا تذکرہ کرتے ہوئے کانگریس کے معاشی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’’موجودہ حکومت ہماری آنے والی نسلوں کو قرض میں دبا رہی ہے۔ گزشتہ 9 سالوں میں فی کس قرض 43124 روپے سے بڑھ کر 109373 روپیہ ہو گیا ہے۔ یعنی فی کس قرض 2.53 گنا ہو گیا ہے۔ حکومت ہند کا مجموعی بقایہ قرض جو 31 مارچ 2014 تک 55.87 لاکھ کروڑ روپیہ تھا، وہ 31 مارچ 2023 تک 155.31 لاکھ کروڑ تک جانے کا اندازہ ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 2022 کے لیے، جی ڈی پی کے لیے ہمارا قرض 83 فیصد تھا، جو ہمارے جیسے ممالک اور ابھرتے بازار اور ترقی پذیر معیشتوں (ای ایم ڈی ای) کے اوسط قرض 64.5 فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ کانگریس حکومت ہند کے بڑھتے بقایہ داخلی و خارجی قرضوں کو لے کر فکرمند ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔