کرناٹک کے لوگوں کو ’امول‘ دودھ فروخت کرنے کی مخالفت کرنی چاہئے: کماراسوامی

کماراسوامی نے کہا کہ امول کو مرکزی حکومت کی حمایت سے عقبی دروازے سے کرناٹک میں مسلط کیا جا رہا ہے۔ امول کرناٹک ملک فیڈریشن اور کسانوں کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ کنڑ لوگوں کو امول کے خلاف بغاوت کرنی چاہئے۔

ایچ ڈی کماراسوامی، تصویر اے آئی این ایس
ایچ ڈی کماراسوامی، تصویر اے آئی این ایس
user

قومی آوازبیورو

بنگلورو: جے ڈی ایس لیڈر ایچ ڈی کماراسوامی نے ہفتہ کو کرناٹک کے لوگوں سے ریاست میں امول دودھ فروخت کرنے کے اقدام کی مخالفت کرنے کی اپیل کی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ کماراسوامی نے کہا، امول کو مرکزی حکومت کی حمایت سے عقبی دروازے سے کرناٹک میں مسلط کیا جا رہا ہے۔ امول کرناٹک ملک فیڈریشن (کے ایم ایف) اور کسانوں کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ کنڑ لوگوں کو امول کے خلاف بغاوت کرنی چاہئے۔

کماراسوامی نے کہا ہم کنڑ باشندگان کے طور پر ہمیں امول کی مخالفت کرنی چاہئے اور متحد ہو کر کرناٹک کے کسانوں کے مفادات کا دفاع کرنا چاہئے۔ ہمارے لوگوں اور گاہکوں کو ترجیحی بنیاد پر نندنی مصنوعات کا استعمال کرنا چاہئے اور کسانوں کی معاشی زندگی کو بچانا چاہئے۔


کرناٹک کی حکومت نے امول کو کورامنگلا، بنگلور میں سستے داموں پر ایک بڑا پلاٹ الاٹ کیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جب یہاں کی حکومت نے اتنی فراخ دلی دکھائی ہے تو وہ کے ایم ایف کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ کماراسوامی نے کہا امول کو مجبور کیا گیا کیونکہ سابق وزیر اعظم دیوے گوڑا کے دور میں یل ہنکا میں ایک خصوصی آئس کریم یونٹ قائم کیا گیا تھا اور کے ایم ایف آج تک امول کے لیے بڑی مقدار میں آئس کریم تیار کر رہا ہے۔

یہ بالکل واضح ہے کہ بی جے پی کی ڈبل انجن والی حکومت دودھ پیدا کرنے والوں کو سڑکوں پر دھکیل کر گجرات کے عوام کا غلام بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ کماراسوامی نے کہا کہ کرناٹک بی جے پی حکومت اور کے ایم ایف کی خاموشی نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ امول نندنی کو مقابلہ دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے جس کی ضرورت نہیں ہے اور وہ نندنی برانڈ کو کمزور کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں کوآپریٹیو کے درمیان غیر صحت مند مقابلہ غیر ضروری ہے۔


کماراسوامی نے کہا امول انتظامیہ کنڑ افراد اور کے ایم ایف کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ امول اپنی واحد حریف نندنی کو اپنے ہی میدان میں روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک قوم، ایک امول، ایک دودھ، ایک گجرات مرکزی حکومت کا سرکاری موقف لگتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔