اب شائد کسی کی ہمت نہیں ہے کہ راہل گاندھی کوغیر سنجیدہ سیاست داں کہے

راہل گاندھی اپنی بھانجی اور اس کی سہیلیوں کے ساتھ مندر میں داخل ہوئے، پجاری نے گلدستہ پیش کرکے ان کا استقبال کیا اور پھر انہوں نے مندر میں درشن کئے۔

راہل گاندھی، تصویر قومی آواز
راہل گاندھی، تصویر قومی آواز
user

سید خرم رضا

بھارت جوڑو یاترا کے تعلق سے تمام طرح کی خبریں آتی رہیں اور ان خبروں کی وجہ سے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ آیا اس یاترا سے ملک کو یا کانگریس پارٹی کو کتنا فائدہ ہوگا؟ اس سوال کی وجہ سے بھارت جوڑو یاترا کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے لئے بے چینی بڑھتی رہی۔ جیسے ہی دہلی میں یاترا داخل ہوئی تو سوچا کہ اس یاترا کا بذات خود مشاہدہ کیا جائے۔ صبح میٹرو سے آشرم پہنچے تو وہاں اس مندر میں داخلہ کے لئے زبردست جدو جہد کرنی پڑی، جس کے احاطہ میں یاتریوں کے لئے کھانے کا، آرام کرنے کا اور مندر میں پوجا کرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔

بہر حال لوگوں میں جو زبردست جوش و خروش نظر آیا اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ کانگریس کو اس یاترا سے تو سیاسی فائدہ ہوگا۔ بڑی مشکل سے میڈیا کا پاس دکھا کر اندر داخل ہوئے۔ اندر جہاں کانگریس کے رہنما نظر آئے، وہیں مندر کے پجاری مندر کی سیڑھیوں پر راہل کا استقبال کرنے کے لئے انتظار میں کھڑے دکھے۔ مندر کے پجاری کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر یہ خیال آیا کہ اس یاترا سے صرف کانگریس کو سیاسی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ملک کو بھی نظریاتی طور پر فائدہ ہوگا۔ یہ بات ذہن میں اس لئے آئی کیونکہ کانگریس کے سیاسی حریفوں نے راہل کی جو شبیہ بنائی ہے یہ اس پر سیدھی ضرب تھی۔


راہل گاندھی اپنی بھانجی اور اس کی سہیلیوں کے ساتھ مندر میں داخل ہوئے، پجاری نے گلدستہ پیش کرکے ان کا استقبال کیا اور پھر انہوں نے مندر میں درشن کئے۔ پجاری نے جہاں ان کے ماتھے پر ٹیکہ لگایا وہیں ان کو ایک چادر بھی پیش کی۔ راہل گاندھی نے آنکھیں بند کرکے مندر میں بھگوان کی مورتی کے درشن کئے اور پوجا کی، ان کے بعد پرینکا اپنے شوہر کے ساتھ مندر میں درشن کے لئے پہنچیں، جہاں پجاری نے ان کا بھی استقبال کیا، ٹیکہ لگایا اور چادر پیش کی۔ اس کے بعد سونیا گاندھی راہل سے ملنے کے لئے وہاں پہنچی۔ جس پر راہل کے حریفوں نے کہا کہ یہ یاترا تو ’پریوار جوڑو یاترا‘ ہے جس پر دہلی کے انچارج شکتی سنگھ گوہل نے ایک صحافی کے جواب میں کہا کہ جن کے رہنما نے اگنی کے سامنے قسم کھائی اور بعد میں اپنے پریوار کو چھوڑ دیا، ان کو اس طرح کے بیانات دینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ایک خاندان (پریوار) ہے اور اس میں نفرت اور توڑنے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

آشرم میں آرام کے بعد یاترا جب نظام الدین پہنچی تو وہاں پر راہل گاندھی نے درگاہ حضرت نظام الدین میں حاضری دی۔ درگاہ میں جہاں بہت بڑی تعداد عقیدتمندوں کی تھی وہیں ایک گروپ ’بھر دو جھولی میری‘ قوالی پیش کر رہا تھا۔ درگاہ میں راہل گاندھی کی حاضری نے اس یاترا کے مقصد پر مہر لگا دی۔ ظاہر ہے اس یاترا کا مقصد ملک میں جو مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیل رہی ہے اس کو کم کرنا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام مذاہب کے لوگوں اور عبادت گاہوں کو احترام کی نظروں سے دیکھا جائے۔


آشرم سے لے کر راج گھاٹ تک جانے والے تمام راستوں پر لوگوں کا جو جم غفیر دیکھنے کو ملا اور خاص بات یہ تھی کہ شرکاء اس یاترا میں خود شریک ہونے کے لئے آئے تھے اس میں شرکاء کو کوئی رہنما لے کر نہیں آیا تھا اور ان کو جانے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ شرکاء کی کوشش تھی کہ وہ یا تو ایک جھلک راہل گاندھی کی دیکھ لیں یا اس یاترا میں کچھ دور ساتھ چل لیں۔ جب انتخابات نہ ہوں اور کسی امیداوار کا کوئی دباؤ نہ ہو ایسے ماحول میں اپنی مرضی سے لوگ خود اتنی بڑی تعداد میں یاترا میں شریک ہوں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ موجودہ نظام سے اور اس کی پالیسیوں سے کتنا پریشان ہیں۔ چلتے چلتے ایک یاتری نے بہت سادگی سے کہا کہ ’اگر انتخابات کے وقت اتنے لوگ جڑ جاتے تو اس یاترا کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔‘‘

اس یاترا کے بعد بھی اگر کوئی راہل گاندھی کو غیر سنجیدہ سیاست داں کہتا ہے تو پھر اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کسی سیاست داں کا روز صبح اٹھ کر کئی کئی کلومیٹر چلنا اور لوگوں کے بیچ میں رہنا کتنا مشکل کام ہے اور اس کا اندازہ چند کلومیٹر اس یاترا کو کور کرنے کے لئے چلنے سے اندازہ ہو گیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کانگریس کے رہنما ہر جگہ نظر آ رہے تھے لیکن ایک بڑی تعداد ان نوجوانوں کی تھی جو اپنے خواب کے ہندوستان کے لئے چلنا چاہتے تھے جس میں سماج کے ہر طبقہ کے نوجوان شامل تھے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ راہل گاندھی کو اس یاترا کے بعد سبھی بڑے رہنما کے طور پر ماننے لگے ہیں۔ دہلی کی اس یاترا نے ہمارا بھی ذہن کھول دیا ہے اور ایک امید کی کرن کو جگا دیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس باغیچے میں ایک ہی رنگ کے پھول ہیں یا ایک ہی رنگ کے پھول کھل سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔