کوئلہ گھوٹالہ جانچ مدت سے کیوں اَٹکی پڑی،کیا پی ایم اڈانی کو بچا رہے ہیں:کانگریس

مرکزی حکومت 29000 کروڑ روپے کے کوئلہ درآمد گھوٹالے کی جانچ کے لیے ضروری کاغذات ایس بی آئی سے نہیں لے پا رہی کیونکہ اس گھوٹالے میں جس کمپنی کا نام ہے وہ وزیر اعظم کے پسندیدہ اڈانی کی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ ہزاروں کروڑ کے کوئلہ درآمد گھوٹالہ میں مرکزی حکومت کی طرف سے جان بوجھ کر تاخیر کی جا رہی ہے کیونکہ اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے پسندیدہ صنعت کار دوست اڈانی کی کمپنی شامل ہے۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اکتوبر 2014 میں وزیر مالیات کے ماتحت آنے والے ڈی آر آئی نے اعلان کیا تھا کہ کوئلہ کی درآمد میں گھوٹالہ ہوا ہے اور اس کی جانچ ہوگی۔ گھوٹالہ اس بات کا ہے کہ کمپنیوں نے دوسرے ممالک سے منگائے گئے کوئلہ کی قیمت بڑھا چڑھا کر بتائی۔ جے رام رمیش نے بتایا کہ جانچ کے اعلان کے تقریباً چھ مہینے بعد 31 مارچ 2016 کو ڈی آر آئی نے بیان دیا کہ اس معاملے میں 40 کمپنیوں کے شامل ہونے کی بات ہے اور کل گھوٹالہ 29000 کروڑ کا ہے۔

کانگریس لیڈر نے کہا کہ یہ ان سبھی 40 کمپنیوں میں سے زیادہ تر انڈونیشیا سے کوئلہ کی خرید کرتی تھی اور انھیں ہندوستان کی کئی کمپنیوں کو فراہم کرتی تھیں۔ ان میں سرکاری بجلی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ کانگریس کا الزام ہے کہ ان دو بیانوں کے باوجود ڈی آر آئی کی جانچ کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔ جے رام رمیش نے بتایا کہ ستمبر 2017 میں یعنی گزشتہ سال ایک این جی او نے دہلی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ عرضی داخل کر اس کوئلہ گھوٹالہ کی جانچ ہائی کورٹ کے ذریعہ مقرر ایس آئی ٹی سے کرانے کا مطالبہ کیا۔ اس پر جب عدالت نے جواب مانگا تو 9 مارچ 2018 کو ڈی آر آئی نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں 40 کمپنیاں شامل ہیں، ان میں سے 4 کمپنیوں کو وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔ چونکہ ڈی آر آئی جانچ کر رہا ہے اس لیے ایس آئی ٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس کے مطابق ڈی آر آئی نے جن چار کمپنیوں کے بارے میں بتایا ان میں وزیر اعظم کے پسندیدہ صنعت کار گوتم اڈانی کی کمپنی، رافیل سے جڑے صنعت کار انل امبانی کی کمپنی اور ایسا گروپ سے جڑی کمپنی بھی شامل ہے۔

کانگریس لیڈر نے باتیا کہ اس درمیان اڈانی کی کمپنی نے سنگاپور ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی اور مطالبہ کیا کہ کوئلہ درآمد سے متعلق جو بھی کاغذ یا دستاویز ہیں، انھیں حکومت ہند یا جانچ ایجنسی کو نہ دیے جانے کا حکم دیا جائے۔ جے رام رمیش نے کہا کہ اس درمیان 20 مئی 2016 کو وزیر مالیات ہسمکھ ادھیا نے اسٹیٹ بینک کے اس وقت کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر اروندھتی بھٹاچاریہ کو خط لکھ کر اڈانی کی کمپنی کے کوئلہ درآمد سے متعلق کاغذات ڈی آر آئی کو دستیاب کرانے کو کہا۔ لیکن چار دن بعد ہی ایس بی آئی چیف اروندھتی بھٹاچاریہ نے جواب دیا کہ چونکہ اڈانی گروپ نے سنگاپور کی عدالت میں عرضی داخل کی ہے، اس لیے یہ کاغذات ڈی آر آئی کو نہیں سونپے جا سکتے، کیونکہ ایسا کرنا سنگاپور کے قانون کے خلاف ہوگا۔

کانگریس نے سوال پوچھا کہ جب کمپنی ہندوستان کی، بینک حکومت ہند کا، کوئلہ درآمد اور اس کی فراہمی ہندوستان میں ہوئی اور جانچ بھی ہندوستانی ایجنسی ہی کر رہی ہے تو ایسے میں سنگاپور عدالت کے قانون کی اتنی فکر کیوں؟ کانگریس نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ گزشتہ چار سالوں میں وزیر اعظم نریندر مودی تین بار سنگاپور کا دورہ کر چکے ہیں اور وہاں کے وزیر اعظم ہندوستان آ چکے ہیں، تو پھر اس معاملے میں کوئی پروگریس کیوں نہیں ہو رہا ہے؟

کانگریس نے بتایا کہ اس درمیان ابھی گزشتہ ہفتہ جب سنگاپور عدالت نے اڈانی گروپ کی عرضی پر حکم سے انکار کر دیا تو اڈانی گروپ نے بمبئی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر ڈی آر آئی کو کاغذات نہ دیے جانے کی اپیل کی۔ اس طرح یہ معاملہ ایک بار پھر لٹک گیا۔

کانگریس نے الزام عائد کیا کہ چار سال میں اس معاملے کی جانچ آگے نہ بڑھنے سے واضح ہے کہ وزیر اعظم کے پسندیدہ بزنس مین کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کانگریس نے کہا کہ ’’اگر اس بزنس مین کے خلاف کارروائی ہوگی تو حکومت ہل جائے گی۔‘‘ کانگریس نے اس معاملے میں وزیر مالیات ارون جیٹلی پر بھی نشانہ سادھا۔ کانگریس نے کہا کہ ’’ویسے تو وزیر مالیات ہر معاملے پر بلاگ لکھتے ہیں لیکن اس معاملے میں ابھی تک خاموش کیوں ہیں۔‘‘ کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ اس گھوٹالے کی جانچ وقت معینہ اور غیر جانبدار گریقے سے ہو، عدالت میں عرضی پر ڈی آر آئی جواب دے اور جانچ کو آگے بڑھائے، حکومت جانچ کی مشکلوں کو دور کرے اور اس جانچ کے لیے ضروری کاغذات ڈی آر آئی کو دستیاب کرائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔