تہاڑ جیل میں 19 سالہ ذیشان کی موت کے ایک ہفتہ بعد بھی شروع نہیں ہوئی جانچ

ذیشان کی لاش 17 فروری کو اس کے گھر والوں کے حوالے کر دی گئی، جب اس کے دفن کی تیاری ہو رہی تھی تو رشتہ داروں نے اس کے جسم پر بے شمار چوٹوں کے نشان دیکھے تھے۔

تہاڑ جیل، تصویر آئی اے این ایس
تہاڑ جیل، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

ذیشان ملک کی عمر صرف 19 سال تھی اور جب اس کی لاش گھر والوں کو ملی تو انھوں نے دیکھا کہ اس کے جسم پر جگہ جگہ چوٹوں کے بے شمار نشان تھے۔ سبھی زخم چار سے پانچ دن پرانے ہی معلوم پڑ رہے تھے۔ جب اسے تہاڑ جیل سے دین دیال اپادھیائے اسپتال لایا گیا تو اس کی یہی حالت تھی۔ یہ کہنا ہے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ذیشان ملک نومبر سے تہاڑ جیل میں بند تھا۔ اس پر سگریٹ کا ایک پیکٹ چرانے کا الزام تھا۔ راجدھانی دہلی کے پریت وِہار علاقے کی جے جے کالونی گرو انگد نگر کے رہنے والے ذیشان ملک کو پریت وہار پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ویسے وہ اپنے گھر کے نزدیک ہی موٹر میکینک کا کام کرتا تھا۔ ذیشان کے گھر میں اس کے 45 سالہ والد اور 41 سالہ ماں کے علاوہ دو بھائی اور تین بہنیں بھی ہیں۔ ذیشان کے دو بہن بھائی معذور ہیں۔


ذیشان کے خلاف 19 نومبر 2021 کو دفعہ 154 سی آر پی سی کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اس پر تعزیرات ہند کی دفعہ 457 (تالا توڑ کر گھر میں گھس کر چوری کرنا) اور 380 (گھر میں چوری کرنا) کا مقدمہ درج کیا گیا۔ علاقے میں رہنے والے انل چورسیا کی شکایت پر ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ انل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ذیشان ملک کے گھر کے نزدیک ہی سگریٹ، پانی کی بوتلیں اور سنیکس وغیرہ بیچتا ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے پایا کہ کسی دکان سے محض سگریٹ کا پیکٹ چرانے پر تعزیرات ہند کی دفعہ 457 اور 380 جیسی دفعات لگا دی گئیں جو کہ گھر میں گھس کر بڑی چوری کرنے پر لگائی جاتی ہیں۔ ان دفعات کے تحت کیے گئے جرائم میں ضمانت نہیں ہوتی ہے۔


ابھی 14 فروری کو جب ذیشان ملک کو دین دیال اپادھیائے اسپتال لایا گیا تو اس کی موت ہو چکی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ذیشان کی موت بیماری کی وجہ سے ہوئی۔ لیکن ملک کے گھر والوں کا الزام ہے کہ ذیشان کو حراست میں بے رحمی سے پیٹا گیا، اس کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور اس کے جسم پر پٹائی سے لگی بے شمار چوٹیں تھیں۔ اسے حراست میں قتل کے معاملے کی شکل میں دیکھا جانا چاہیے۔

ذیشان کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد 17 فروری کو اس کے کنبہ کو سونپ دی گئی۔ جب اس کے دفن کی تیاری ہو رہی تھی تو اس کے گھر والوں نے اس کے جسم پر بے شمار چوٹوں کے نشان دیکھے تھے۔ گھر والوں نے اس کی آخری رسومات سے پہلے اس کی کئی تصویریں بھی کھینچی ہیں جس میں جسم پر چوٹوں کے نشان صاف نظر آ رہے ہیں۔


فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اس بارے میں پوچھ تاچھ کی کہ حراست میں موت کے معاملے میں حقوق انسانی کمیشن کے ذریعہ جاری ضابطوں پر عمل کی گیا تھا یا نہیں۔ ٹیم نے اس سلسلے میں جیل ڈائریکٹر جنرل سندیپ گویل سے ملاقات کر جانکاری مانگی ہے۔ لیکن گویل نے اس بارے میں کوئی جانکاری نہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ سندیپ گویل نے ٹیم کو سنٹرل جیل-5 کے سپرنٹنڈنٹ حکم چند سے ملنے کو کہا۔ اسی جیل میں ذیشان ملک کو رکھا گیا تھا۔ لیکن حکم چند نے ٹیم سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

اس معاملے میں فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے دوبارہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر سے 22 فروری کو رابطہ کیا تو انھوں نے جیل کے لاء افسر زوراور سنگھ سے ملنے کو کہا۔ ٹیم نے جب زوراور سنگھ سے پوچھا کہ کیا ذیشان ملک کی موت کے معاملے کی جانچ شروع کی گئی، تو انھوں نے سوال کو ٹال دیا۔ البتہ انھوں نے کہا کہ ذیشان ملک ڈرگ ایڈکٹ تھا اور کسی میڈیکل کنڈیشن کے سبب اس کے بلڈ پلیٹلیٹس کم ہو گئے تھے جس کی وجہ سے اسے انٹرنل بلیڈنگ ہوئی اور اس کی موت ہو گئی۔


جب فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے بتایا کہ ان کے ساتھ ٹیم ممبر وکاس واجپئی ایک ڈاکٹر ہیں، تو زوراور سنگھ کا رخ بدل گیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ تو صرف اپنی رائے بتا رہے تھے اور ہو سکتا ہے کہ موت کی وجہ کچھ اور ہو۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آخر اس معاملے میں جانچ کیوں نہیں شروع کی گئی تو زوراور سنگھ نے کہا کہ ضابطوں کے تحت ایسا ضرور کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ جانکاری حاصل کر کے ٹیم کو بتائیں گے، لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا کہنا ہے کہ جیل افسران سے بات چیت کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ ذیشان ملک کی موت کے معاملے میں ایک ہفتہ بعد بھی کوئی جانچ شروع نہیں کی گئی ہے۔

اس درمیان ڈی ڈی یو اسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کے وقت ذیشان کے جسم پر چوٹوں کے نشان تھے جو کہ 5-4 دن پرانے تھے۔ ذیشان کے جسم کے اندرونی حصوں کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اس معاملے کی غیر جانبدارانہ جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ جانچ حقوق انسانی کمیشن کی نگرانی میں ہونی چاہیے اور جانچ ہونے تک جیل سپرنٹنڈنٹ کو معطل کیا جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔