’نئی نسل دنیا کے سامنے اسلامی کردار پیش کرنے کے لیے تیار‘، افغان نژاد صحافی عنایت الحق یاسینی

دارالعلوم دیوبند پہنچے بی بی سی لندن سے وابستہ صحافی عنایت الحق نے کہا کہ یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ اسلاموفوبیا کے خاتمہ میں کتنا وقت لگے گا، لیکن اب امید کی جا سکتی ہے کہ یہ خیال جلد کافور ہو جائے گا۔

<div class="paragraphs"><p>بنگلہ دیش نژاد صحافی عنایت الحق یاسینی</p></div>

بنگلہ دیش نژاد صحافی عنایت الحق یاسینی

user

عارف عثمانی

دیوبند: ’’اسلاموفوبیا کے خاتمے کا سفر شروع ہو چکا ہے اور ہماری نسل نو اب دنیا کے سامنے اسلامی کردار پیش کرنے کے لئے تیار ہے۔ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ اسلام دنیا کے لیے امن و آشتی کا پیامبر اور مثالی نمونہ بن کر ابھرے گا۔‘‘ ان خیالات کا اظہار برطانیہ سے دارالعلوم دیوبند پہنچے افغانستان نژاد اور بی بی سی لندن کے پشتو فارسی شعبہ سے وابستہ معروف صحافی عنایت الحق یاسینی نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ متعین کیا جانا مشکل ہے کہ اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے کتنا وقت لگے گا، لیکن اب امید کی جا سکتی ہے کہ اس خیال کے کافور ہو جانے کا وقت شروع ہو چکا ہے۔

عنایت الحق یاسینی کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں رہائش پذیر نئی نسل اسلامی اقدار کی پاسداری کے ساتھ ساتھ دوسروں کی تہذیب و ثقافت اور مزاج و نفسیات کا درک رکھنے لگی ہے اور اپنے معاشرتی عمل سے اسلام کی صحیح تصویر اور تعلیمات دوسروں تک پہنچا رہی ہے، جو ایک خوش آئند پہلو ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان کے باشندے ہیں اور برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ خود وہاں کی مختلف النوع لسانی تہذیب سے اتنا واقف نہیں جتنا ان کی بیٹی واقفیت رکھتی ہے۔


اس موضوع پر یاسینی نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی صحیح تصویر دیگر اقوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے مسلم ممالک کے حکمرانوں کا رویہ بھی بڑا اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے پاکستان کے سابق سربراہ عمران خان کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ان سے مکمل طور پر متفق نہیں ہیں، تاہم یہ سچ ہے کہ عمران خان نے عصری معنویت کے ساتھ دنیا کے سربراہان مملکت کے سامنے اسلام کی جو شبیہ پیش کی ہے وہ دیگر مسلم حکمرانوں کے لیے ایک مثال ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے عنایت الحق یاسینی نے کہا کہ وہ ارض جہاں پر کچھ حیرت انگیز اور تعجب خیز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، ان میں سے دارالعلوم دیوبند بھی ایک ہے۔ بانیان دارالعلوم دیوبند کے ذہنوں میں 150 سال قبل جس نہج پر یہ ادارہ قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا، اس کی کوئی دوسری نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ یہ خود ایک حیرت انگیز واقعہ ہے کہ ڈیڑھ سو سال سے ایک ادارہ اپنے بانیان کی فکر اور نہج پر بدستور قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور دنیا کے کسی بڑے ملک میں بھی دارالعلوم دیوبند جیسا کوئی ادارہ قائم نہیں ہو سکا۔ آج اس ادارہ کے اثرات و ثمرات پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔


عنایت الحق یاسینی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی سب سے اہم اور اچھی بات یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ہر حال میں سیاسی ماحول کی پراگندگی سے محفوظ رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند اگر ملک کے سیاسی امور میں دخیل ہوتا تو اس کا یہ سفر اتنا طویل اور مثالی نہیں ہو سکتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی لائبریری ایک کلاسیکل لائبریری ہے، جو ہندوستان کے کتب خانوں میں اپنی مثال آپ رکھتی ہے۔

عنایت الحق یاسینی نے افغانستان کے موجودہ حالات اور وہاں پر تعلیم نسواں کے مسئلہ پر کہا کہ وہ خود مخلوط تعلیم کو زہر ہلاہل تصور کرتے ہیں، لیکن تعلیم نسواں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس کے لئے معقول نظم ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کا بڑا مسئلہ وہاں کا خط افلاس ہے۔ بڑی آبادی غربت اور بیماری میں مبتلا ہے۔ دنیا بھر کی دولت افغانستان کو حاصل ہوئی، لیکن اس کا کوئی فائدہ وہاں کی عوام اور ملک کو نہیں پہنچ سکا۔ عوامی فلاح و بہبود اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے جتنی امدادی رقم افغانستان کو موصول ہوئی تھی، وہ سب یورپ کے بینکوں میں لوٹ گئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہاں کے عوام موجودہ حکومت سے ناخوش ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔