میرے حالات نے مجھے خاموشی اور تنہائی میں سکون تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے: عمر خالد

تہاڑ جیل میں قید عمر خالد نے ایک طویل خط ماہر تعلیم روہت کمار کے نام لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ ’’بعض اوقات میڈیا کا جھوٹ پولیس کے جھوٹ سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔‘‘

عمر خالد
عمر خالد
user

قومی آوازبیورو

ماہر تعلیم روہت کمار نے گزشتہ 15 اگست کو تہاڑ جیل میں بند سماجی حقوق کے کارکن عمر خالد کے نام ایک کھلا خط لکھا تھا۔ اس خط کا جواب انھیں 12 ستمبر کو موصول ہوا جس میں عمر خالد نے کئی اہم باتیں سامنے رکھی ہیں۔ یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمی روک تھام ایکٹ) کے تحت دو سال جیل میں گزار چکے عمر خالد نے خط میں روہت کمار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مجھے خوشی ہے کہ میں ان بند احاطے میں بھی آپ کا کھلا خط پڑھ سکا۔ جب میں آپ کو جوابی خط لکھنے بیٹھا ہوں تو ان تمام لوگوں کے نام سن سکتا ہوں جو آج رات ریلیز ہونے والے ہیں، اور جن کا نام لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے (غروب آفتاب کے فوراً بعد) جب ’رہائی پرچہ‘ عدالتوں سے جیل حکام تک پہنچتے ہیں۔ جس طرح اندھیرا اُتر کر جیل کے احاطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اسی طرح کچھ قیدی آزادی کی روشنی دیکھنے کو ہیں۔ میں ان کے چہروں پر خوشی، مکمل خوشی دیکھ رہا ہوں۔‘‘

یہ مکمل خط ’دی وائر‘ (انگریزی) نے اپنے ویب سائٹ پر پوسٹ کیا ہے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ ’’میں اس دن کا انتظار اور امید کرتا ہوں جب میں اپنا نام سنوں گا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ نہ جانے یہ اندھیری سرنگ کتنی لمبی ہے؟ کیا میں ختم ہونے کے قریب ہوں، یا میں صرف درمیان میں ہوں؟ یا ابھی آزمائش شروع ہوئی ہے؟‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ’’کہتے ہیں ہم آزادی کے امرت کال میں داخل ہو گئے ہیں۔ لیکن آزادی کا دفاع کرنے والوں کی آزمائش سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ’راج‘ کے دنوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ حال ہی میں، غلامی کی نوآبادیاتی علامتوں کو ختم کرنے کے بارے میں بہت بات کی گئی ہے۔ جبکہ نوآبادیاتی دور کی یاد دلانے والے کئی سخت قوانین کو سرگرم کارکنوں، طلباء، ناگواروں اور سیاسی اپوزیشن کے خلاف ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ کیا لوگوں کو یو اے پی اے اور رولٹ ایکٹ میں کوئی مماثلت نہیں آتا، جسے انگریزوں نے ہمارے مجاہدین آزادی کے خلاف استعمال کیا؟‘‘


اپنے خط میں عمر خالد نے اخبارات، خصوصاً ہندی اخبارات کی خبروں کے گرتے معیار کا بھرپور تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’گزشتہ دو سالوں میں جب سے جیل میں ہوں، اخبارات (یہاں خبروں کا واحد ذریعہ) وقفے وقفے سے میرے کیس پر رپورٹ کرتے رہے ہیں۔ انگریزی اخبارات نے معروضیت کے دکھاوے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن زیادہ تر ہندی اخبارات (جن پر 90 فیصد قیدی روزانہ کی خبروں کے لیے منحصر ہیں) نے تمام صحافتی اخلاقیات کو ہوا میں پھینک دیا ہے۔ وہ خالص زہر ہیں۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ’’انہوں نے میری ضمانت کی کارروائی کو بہت چن چن کر رپورٹ کیا۔ جب میرے وکلاء نے بحث کی، تو انہوں نے زیادہ تر ہماری گزارشات کی اطلاع ہی نہیں دی۔ یا اگر کسی تبدیلی کے پیش نظر انہوں نے مجھ پر بہت زیادہ مہربان ہونے کا فیصلہ کیا تو اسے صفحہ 5 یا 6 پر ایک چھوٹے سے غیر واضح کالم میں اور انتہائی معمولی سرخیوں کے ساتھ شائع کر دیا۔ لیکن پبلک پرازیکیوٹر کے دلائل صفحہ اول کی خبریں تھیں، جو اس انداز میں پیش کی گئیں کہ گویا یہ عدالت کے مشاہدات ہیں۔ انھوں نے ایسے مواقع پر اپنی سنسنی خیز سرخیوں کی تکمیل کے لیے میری کچھ سیاہ تصاویر کا بھی استعمال کیا۔‘‘

ہندی اخبار کی ایک خبر کا تذکرہ کرتے ہوئے عمر خالد لکھتے ہیں ’’ایک صبح ایک ہندی روزنامہ میں سرخی بنائی گئی تھی ’خالد نے کہا تھا بھاشن سے کام نہیں چلے گا، خون بہانا پڑے گا‘۔ اس خبر نے شہ سرخی میں کیے گئے اس دعوے کو ثابت بھی نہیں کیا، بلکہ اس نے یہ لکھنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی کہ یہ ایک غیر ثابت شدہ الزام ہے، اور اس پر عدالتی جانچ باقی ہے۔ اس سرخی کے ساتھ کوئی کوئی ’کوٹیشن مارک‘ استعمال نہیں کیا گیا اور نہ ہی سوالیہ نشان تھا۔ دو دن بعد اسی اخبار نے گزشتہ مرتبہ سے بھی زیادہ سنسنی خیز سرخی لگائی، ’خالد چاہتا تھا مسلمانوں کے لیے الگ دیش‘۔ ان کا اشارہ جمنا پار علاقہ میں ہوئے فسادات کی طرف تھا جس میں بیشتر مسلمانوں کی ہلاکت ہوئی۔ یہ المناک مزاحیہ تھا جس پر مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہنسوں یا روؤں۔ میں ان لوگوں کو کس طرح قائل کروں جو روز یہ زہر پی رہے ہیں؟‘‘


خط کے ایک مقام پر عمر خالد لکھتے ہیں ’’بعض اوقات میڈیا کا جھوٹ پولیس کے جھوٹ سے بھی آگے نکل جاتا ہے۔ ایک خبر کی رپورٹ ( یہ بھی ایک مشہور ہندی روزنامہ میں شائع ہوئی تھی) نے دعویٰ کیا کہ فسادات کو بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی، اور میں نے 16 فروری 2020 کو ذاکر نگر (نئی دہلی) میں شرجیل امام سے خفیہ ملاقات کی تھی (فسادات سے ایک ہفتہ قبل، یعنی 16 فروری 2020 کی شب)۔ حالانکہ پولیس بھی اس کی تصدیق کرے گی کہ اس وقت میں (دہلی سے 1136 کلومیٹر دور) امراوتی، مہاراشٹر میں تھا۔ اور اس رات شرجیل امام (اس سے کوئی بھی اختلاف نہیں کر سکتا) تہاڑ جیل میں تھا، کیونکہ اسے تقریباً 20 دن پہلے ایک مختلف کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ خبر پڑھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ سب کچھ کرنے والے معزز صحافی نے بنیادی حقائق کو بھی جانچنے کی پرواہ نہیں کی۔‘‘

دو سال جیل میں گزارتے ہوئے مشکل حالات کا سامنا کرنے والے عمر خالد خط میں کچھ مقامات پر کافی دلبرداستہ نظر آتے ہیں۔ ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں ’’دیوار سے سر ٹکرانے کے بجائے میں اپنا زیادہ تر وقت جیل میں گزارتا ہوں۔ درحقیقت یہ گزشتہ دو سالوں میں میرے اندر آنے والی بڑی تبدیلی ہے۔ میرے حالات نے مجھے خاموشی اور تنہائی میں سکون تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ میں نے اپنے ابتدائی دنوں کی قید کے مقابلے میں اب اپنے چھوٹے سے سیل میں گھنٹوں بند رہنے پر کلاسٹروفوبک محسوس کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اب عدالت میں پیشی کے دوران لوگوں اور ٹریفک کی نظر اور آواز مجھے چڑچڑا اور پریشان کر دیتی ہے۔ ہجوم سے بہت دور جیل کا سکون میرا معمول بننے لگا ہے۔ میں حیران ہوں، کیا مجھے اسیری کی عادت ہو رہی ہے؟‘‘


حالانکہ خط میں اپنے اندر پیدا کچھ مثبت تبدیلیوں کا بھی عمر خالد تذکرہ کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’جیل نے میری زندگی میں کئی مثبت تبدیلیاں بھی لائی ہیں۔ میں نے سگریٹ نوشی چھوڑ دی ہے۔ دو سال سے میں موبائل فون کے بغیر زندگی گزار رہا ہوں، جس کا مطلب ہے کہ میں اس دوسرے نشہ سے بھی باہر نکل چکا ہوں، یعنی سوشل میڈیا۔ آخر کار کئی سالوں کی کوشش کے بعد میری نیند کا چکر دوبارہ اپنی جگہ پر آ گیا ہے (میری والدہ یہ سن کر خوش ہوں گی)۔ صبح سویرے سونے کے بجائے، میں اب سورج کے ساتھ جاگتا ہوں۔‘‘ خط کے آخر میں عمر خالد کہتے ہیں ’’وہ تمام لوگ جو اپنے آپ کو بہت خطرے میں ڈال رہے ہیں، جمہوریت اور سیکولرازم، سچائی اور انصاف کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، انہیں جیل کی فکر کرنا چھوڑ دینا چاہیے۔ جیل آپ کی کچھ برائیوں پر قابو پانے میں آپ کی مدد کر سکتی ہے۔ یہ آپ کو پرسکون، صابر اور خود کفیل بھی بنا سکتا ہے، جیسا کہ اس نے میرے ساتھ کیا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔