مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں 11 قرارداد پاس، یکساں سول کوڈ کی مخالفت، سی اے اے واپسی کا مطالبہ

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’بورڈ کے دو روزہ اجلاس میں پاس 11 قراردادوں میں یکساں سول کوڈ کی مخالفت بھی شامل ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا دو روزہ اجلاس اتر پردیش کے کانپور میں 21 نومبر کو ختم ہوا جس میں کئی اہم فیصلے لیے گئے۔ اس اجلاس میں جہاں مولانا رابع حسنی ندوی کو چھٹی مرتبہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا چیئرمین منتخب کیا گیا، وہیں یکساں سول کوڈ، جبراً مذہب تبدیلی، سی اے اے، موب لنچنگ اور دیگر اہم ایشوز پر غور و خوض بھی ہوا۔ ایسی صورت میں جب کہ مرکزی حکومت نے متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لے لیا ہے، شہریت ترمیمی قانون یعنی سی اے اے کی واپسی کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا ہے۔ اس تعلق سے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی اپنی آواز بلند کی ہے۔ اس اجلاس میں 11 اہم قرارداد پاس ہوئے ہیں، جن میں سی اے اے واپسی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’’بورڈ کے دو روزہ اجلاس میں پاس 11 قراردادوں میں یکساں سول کوڈ کی مخالفت شامل ہے۔ بورڈ کے اجلاس میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گزشتہ کچھ سال میں ہوئے نازیبا تبصروں پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کسی بھی مذہب کی بے عزتی نہ ہو، اس کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ یکساں سول کوڈ کو لے کر چل رہے عمل پر جو قرارداد پاس ہوا ہے اس میں سبھی مذاہب کے لیے آئینی حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے اور یکساں سول کوڈ کو نہ ماننے کی بات کہی گئی ہے۔


آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے حکومت اور عدالت کی جانب سے کچھ وقف کمیٹیوں کو وقف کی ملکیت فروخت کرنے کی اجازت دیے جانے کو بھی غلط ٹھہرایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بورڈ کے اجلاس میں حکومت یا عدالت کے ذریعہ مذہبی کتاب کی اپنے مطابق تشریح کرنے کو غلط ٹھہرایا گیا ہے اور اس پر روک لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے قرارداد پاس کیا گیا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مسلم اسکالر اور وکیل سے کہا ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ کریں اور لوگوں میں موجود غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔

اجلاس میں مذہب تبدیلی کے تعلق سے کہا گیا کہ مسلمانوں نے ملک میں کبھی بھی زبردستی، لالچ یا دباؤ دے کر کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا۔ اسی لیے ملک میں طویل مدت تک حکومت کرنے کے باوجود مسلمان اب بھی اقلیت میں ہیں۔ کسی نے ابھی تک اس طرح کی شکایت نہیں کی ہے کہ اس کا کسی نے جبراً مذہب تبدیل کرایا۔ مذہب کی تبلیغ کرنا آئین کے مطابق بنیادی حق ہے۔ بورڈ اجلاس میں بنگلہ دیش اور پاکستان میں ہندوؤں پر مظالم کا تذکرہ بھی کیا گیا، اور اسی طرح تریپورہ جیسی ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے پرتشدد واقعات پر روک لگانے کو ضروری بتایا گیا۔ بورڈ نے مسلمانوں سے شادی میں فضول خرچی اور جہیز سے بچنے، شریعت قانون کے مطابق نکاح کرنے کو لے کر بھی قرارداد پاس کیا ہے۔ علاوہ ازیں خواتین کے ساتھ عصمت دری جیسے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے بورڈ نے حکومت سے سخت قدم اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔


آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں اسلام کو لے کر سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی غلط فہمیوں پر لگام لگانے کا مطالبہ زور و شور سے کیا گیا۔ حکومت سے اس طرح کے عمل کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے قرارداد پاس کیا گیا اور کہا گیا کہ اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں جو بند ہونی چاہئیں۔ کاشی اور متھرا کی مسجد کو لے کر کچھ تنظیموں کی جانب سے افواہ پھیلائے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے بھی روکنے کے مطالبہ پر مبنی قرارداد بورڈ اجلاس میں پاس کیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔