پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ ویڈیو کانفرنسنگ سے کرانے پر کشمکش میں مودی حکومت

لاک ڈاؤن کے دوران حکومت پر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ منعقد کرانے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ لیکن ان کمیٹیوں میں بحث کے لیے کئی حساس ایشو بھی آتے ہیں جو مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اوما کانت لکھیڑا

کورونا وبا کی وجہ سے مودی حکومت نے بھلے ہی پارلیمنٹ کو 23 مارچ تک اپوزیشن کی تنبیہ کے بعد بھی چلائے رکھا، لیکن اب پارلیمانی کمیٹیوں کی میٹنگوں کا معاملہ ٹھپ ہونے سے نیا بحران سامنے کھڑا ہو گیا ہے۔ تیسرے مرحلہ کا لاک ڈاؤن 17 مئی کو ختم ہونے کے بعد اب حکومت پر اس بات کا دباؤ بڑھ گیا ہے کہ جزوی لاک ڈاؤن آگے بھی جاری رہنے کے باوجود ویڈیو کے ذریعہ سے میٹنگوں کے انعقاد میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔

اس درمیان لوک سبھا جنرل سکریٹری سنیہہ لتا شریواستو اور راجیہ سبھا جنرل سکریٹری دیش دیپک ورما کمیٹی میٹنگوں کا خاکہ تیار کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن کئی حساس معاملوں پر ماہرین اور مرکزی حکومت کو راضی کرنے کے بعد ہی کوئی آخری فیصلہ لیا جا سکے گا۔ کانگریس کے سینئر اراکین پارلیمنٹ آنند شرما، ششی تھرور اور جے رام رمیش نے حکومت سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ کمیٹیوں کی میٹنگیں کروانے کی گزارش کی ہے۔


اس پیشکش کے بعد گزشتہ ہفتہ راجیہ سبھا چیئرمین ایم ونکیا نائیڈو اور لوک سبھا اسپیکر اوم بڑلا کے درمیان ہوئی میٹنگ میں کوئی فیصلہ نہیں لیا جا سکا۔ سب سے بڑی مشکل کمیٹی میٹنگوں کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ کرائے جانے کو لے کر ہے۔ پارلیمنٹ سکریٹریٹ کے ایک سینئر افسر نے اعتراف کیا کہ ابھی تک یہ طے نہیں ہو پایا ہے کہ اس طرح کی میٹنگیں کس فارمٹ میں ہوں۔ افسر کے مطابق سائبر ماہرین کی رائے لی گئی تو یہی بتایا گیا ہے کہ زوم کے ذریعہ روٹین فارمٹ میں اتنی اہم اور بڑی میٹنگوں کو منعقد کرنا تجرباتی طور پر ممکن نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ پارلیمانی میٹنگوں کے اندر بحث کے لیے آنے والے ایشوز کی رازداری اور نتائج کے بارے میں کچھ بھی عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ اس بارے میں پارلیمانی ضابطے بہت سخت ہیں۔ پارلیمنٹ میں کام کرنے والے افسران کا کہنا ہے کہ جب تک کمیٹیوں کے ضابطے اور طریقہ کار میں تبدیلی نہیں آتی، تب تک اس طرح کی میٹنگوں کو ڈیجیٹل یا ویڈیو تکنیک سے منعقد کرنا غیر آئینی اور نامناسب ہوگا۔


پارلیمانی کمیٹیوں کی میٹنگیں خفیہ کیمرے کے بغیر ہوتی ہیں۔ میٹنگوں کی تفصیل اور ان میں بحث کے معلوم و نامعلوم ایشوز کو تب تک برسرعام نہیں کیا جاتا جب تک پارلیمنٹ کی دونوں ایوانوں کو کمیٹیاں اپنی رپورٹ پیش نہیں کر دیتیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں کی نمائندگی کرنے والے راجیہ سبھا اور لوک سبھا اراکین کے لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والی میٹنگوں میں ذاتی طور پر شامل ہونے کی لازمیت ختم کرنے کے بارے میں بھی مودی حکومت اب تک کوئی قانون نہیں بنا سکی ہے۔

کچھ دنوں قبل حکومت کی جانب سے اشارہ دیا گیا تھا کہ کووڈ-19 کے سبب کمیٹی میٹنگوں کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ منعقد کی جا سکتی ہے۔ حکومت کو کچھ ایسا فیڈ بیک ملا تھا کہ خارجہ پالیسی، دفاع، داخلہ اور وزارت مالیات، اور آڈٹ کمیٹیوں کی داخلی میٹنگوں کی اطلاعات احتیاطی ترکیبوں کے باوجود افشا ہونے سے حساس معلومات کا غلط استعمال ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔


دوسری طرف آئینی معاملوں کے ماہر اور لوک سبھا کے سابق ایڈیشنل سکریٹری دیویندر سنگھ اسوال کہتے ہیں کہ "کورونا کے ذریعہ اب پوری دنیا جس ماحول میں جینے کو مجبور ہے، تو ایسے میں پارلیمانی اداروں کو بھی اسی طرح عوامی مفاد میں اپنے کام کے طریقوں کو بدلنا ہوگا۔ دنیا کے تقریباً ایک درجن ممالک نے پارلیمانی میٹنگیں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ کرنی شروع کر دی ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس طرح کی ویڈیو ڈیجیٹل میٹنگوں کے لیے فوری قوانین میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔"

ڈیڑھ ماہ کے طویل لاک ڈاؤن کے باوجود حکومت کمیٹیوں کی میٹنگوں کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ کرانے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کمیٹیوں کے چیئرمین اور اراکین پارلیمنٹ اپنی اپنی ریاستوں میں ہونے کی وجہ سے میٹنگوں کے لیے دہلی نہیں آ سکتے۔ گھریلو طیارہ اور ریلوے خدمات رخنہ انداز ہونے کی وجہ سے اراکین پارلیمنٹ اپنی ریاستوں میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔


پارلیمانی کمیٹیاں جنھیں ایک طرح سے چھوٹی پارلیمنٹ بھی کہا جاتا ہے، وہ مل کر مرکزی حکومت کی سبھی وزارتوں کے کام کے علاوہ انھیں الاٹ بجٹ اور آگے کے منصوبوں پر پارلیمانی جوابدہی کے ڈھانچے میں تفصیلی گفتگو کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ کی سبھی کمیٹیاں وقت وقت پر حکومت کو اپنی رپورٹ بھی دیتی ہیں اور حکومت کو کئی بار غلط فیصلوں، سرکاری فنڈ کے غلط استعمال ہونے، طے مدت کے اندر کام پورا نہ کرنے، حکومتی نظامِ کار میں شفافیت اور پارلیمنٹ کے تئیں جوابدہی سے دور بھاگنے پر کئی وزارتوں اور اعلیٰ افسران کو کٹہرے میں بھی کھڑا کرتی ہیں۔ عام طور پر کمیٹیوں کا کام پارٹی پالیٹکس سے اوپر ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔