مشن 2024: بی جے پی کو مرکز کے اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن پارٹیاں متحد، پٹنہ میں دیرینہ میٹنگ کل

13 ریاستوں کا دورہ کر کے نتیش کمار نے 19 اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین سے ملاقات کی اور ’مشن 2024‘ کو لے کر نہ صرف اپنا نظریہ ان کے سامنے رکھا، بلکہ انھیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کامیاب کوشش بھی کی۔

<div class="paragraphs"><p>تیجسوی یادو اور نتیش کمار، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تیجسوی یادو اور نتیش کمار، تصویر آئی اے این ایس

user

عتیق الرحمٰن

بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی قیادت اور آر جے ڈی صدر لالو پرساد اور ان کے صاحبزادہ نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو کے مضبوط مشورے و تعاون سے 23 جون (جمعہ) کو راجدھانی پٹنہ میں ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کی ایک بڑی و مشترکہ میٹنگ ہو رہی ہے جس کی تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اور اس میں شرکت کے لیے ملک کے گوشے گوشے سے اپوزیشن رہنماؤں کی پٹنہ آمد کا سلسلہ جمعرات کو شروع بھی ہوگیا جن میں پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی، ٹی ایم سی سربراہ ممتا بنرجی اور این سی پی کے رہنماء قابل ذکر ہیں۔

جمعہ کو ہونے والی میٹنگ میں کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے کے ساتھ سابق قومی صدر راہل گاندھی بھی شریک ہوں گے جس کی وجہ سے میٹنگ کی معنویت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے اور اس بات کے روشن امکانات ہیں کہ اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ میں کئی اہم و بڑے فیصلے کئے جائیں گے جس کے دوررس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں اور مشن- 2024 کے تعلق سے سبھی اپوزیشن پارٹیاں ریاستوں کے اندر اپنے اختلافات کو ترک و فراموش کرکے کم از کم مشترکہ پروگرام کے تحت مضبوط لائحہ عمل کے ساتھ انتخابی میدان میں بی جے پی کے خلاف اتریں گی اور اس کی شکست کو یقینی بنانا اپنا پہلا نشانہ بنائیں گی۔


سبھی اپوزیشن پارٹیوں کا پہلا اور اصل نشانہ مرکز کے اقتدار سے بی جے پی کو ہٹانا ہے اور اسی کو بنیاد بناکر 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے یہ حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے کہ لوک سبھا کی 545 میں سے تقریباً 200سیٹوں پر کانگریس کو اپنا امیدوار کھڑا کرنے کا موقع دیا جائے اور بقیہ 345 یعنی اصل میں 343 سیٹوں پر بقیہ اپوزیشن پارٹیاں اپنے اپنے علاقے میں اثر و مضبوطی کے اعتبار سے بی جے پی کے خلاف اپنا صرف ایک امیدوار مشترکہ طور پر کھڑا کریں گی تاکہ ان کی فتح یقینی ہوسکے اور مرکز میں کانگریس کے ساتھ مل کر اپوزیشن پارٹیوں کی مخلوط حکومت تشکیل دی جاسکے۔

اپنی ناقص کارکردگی کے سبب مرکز کی مودی حکومت کی عوامی مقبولیت میں حد درجہ کمی آگئی ہے جس کا اندازہ خود مرکزی حکومت اور بی جے پی نے اپنے خفیہ سروے میں کرلیا ہے۔ اسے لوک سبھا انتخاب 2024 میں اپنی شکست کا یقین ہو چکا ہے اور 303 سیٹوں والی بی جے پی اب صرف 200 سیٹوں کے اندر محدود ہو جائے گی، اس بات کا اسے نہ صرف اندازہ بلکہ پختہ یقین بھی ہوگیا ہے۔ لیکن اصل اور بنیادی شرط ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اپنے اختلافات کو یکسر فراموش کرکے پوری طرح متحد و منظم ہوجائیں۔ میٹنگ سے قبل ہی عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال اور ٹی ایم سی سربراہ ممتا بنرجی نے اپنی اپنی اختلافی باتیں منظر عام پر لائی ہیں اور کانگریس کے لیے کچھ شرائط رکھ دی ہیں جو فی الحال بہت مناسب نہیں ہیں۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ ان اختلافی باتوں کو بی جے پی کے ذریعہ کچھ زیادہ ہی طول دیا جا رہا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں میں اختلافات میں شدت لانے کی منصوبہ بند سازش کی جا رہی ہے جس سے ہوشیار رہنے کی اپوزیشن پارٹیوں کو ضرورت ہے۔


یہ ایک بڑی اور خوش آئند بات ہے کہ تمام تر اختلافات اور مسائل کے باوجود ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین ایک ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں اور ملک کے اقتدار سے فرقہ پرست قوتوں کو ہٹانا اپنا پہلا فریضہ تسلیم کر رہے ہیں تو یقینی طور پر بہتر و مضبوط فیصلے بھی کئے جائیں گے اور اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے جس کا ملک کے عوام کو شدت سے انتظار ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی یہ میٹنگ انتہائی سخت سیکوریٹی کے درمیان ہو رہی ہے جس میں ہونے والی باتوں کی بھنک بھی بی جے پی کو نہیں لگ سکے اس کا پختہ انتظام کیا گیا ہے جس کے تحت سب سے پہلے مخبر و جاسوس قرار دے کر سابق وزیراعلیٰ جیتن رام مانجھی اور ان کی پارٹی ہم (سیکولر) کو عظیم اتحاد سے باہر کر دیا گیا ہے۔

میٹنگ میں راہل، کھڑگے، این سی پی سربراہ شرد پوار، جے ایم ایم سربراہ ہیمنت سورین، سی پی آئی سربراہ ڈی راجہ، سی پی آئی ایم سربراہ سیتارام یچوری، سی پی آئی ایم ایل سربراہ دیپانکر بھٹاچاریہ، ڈی ایم کے سربراہ ایم کے اسٹالن، سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو، عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال اور دیگر کئی رہنما بھی شرکت کر رہے ہیں۔


ہندو-مسلم، مندر-مسجد، لو جہاد، تبدیلیٔ مذہب، گئو کشی، یکساں سول کوڈ اور اس جیسے دیگر متنازعہ ایجنڈوں کو مضبوطی سے اٹھا کر مذہب و ذات و برادری کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرنے اور ملک میں بدامنی، نفرت و تشدد کا خوفناک و خطرناک ماحول پیدا کرنے کا نہ صرف مخالف قوتوں کا مرکز کی بی جے پی حکومت پر الزام ہے بلکہ یہ الزامات اب پوری طرح عیاں اور ثابت بھی ہوچکے ہیں جسے مرکز کی مودی حکومت اپنے لئے نقصان کے بجائے حصولیابی ہی تصور کرتی ہے اور ان متنازعہ ایجنڈوں کو ہی ملک کے اکثریتی طبقہ کی خوشی کا ذریعہ بھی تصور کرتی ہے۔ اس کا خاطر خواہ فائدہ بھی اسے ملتا رہا ہے کیونکہ اکثریتی طبقہ فوری طور پر جذباتی ہوکر بی جے پی کو ووٹ بھی کر دیتا ہے جس کی بدولت بی جے پی کو اقتدار مل جاتا ہے۔

ان متنازعہ ایجنڈوں سے حقیقی معنوں میں ملک کو شدید نقصان پہنچا ہے خاص طور پر بی جے پی کے 9 سالہ دور اقتدار میں۔ ملک کے بیشتر آئینی و جمہوری اداروں کا وقار مجروح کر دیا گیا اور اسے غیر فعال بنا دیا گیا۔ بیشترسرکاری کمپنیوں اور اداروں کو چند دوستوں کے سپرد کر دیا گیا یا پھر چھوٹی سی رقم کے عوض فروخت کر دیا گیا۔ پبلک سیکٹر کی کمپنیاں اب دم توڑ رہی ہیں جس کا سیدھا نقصان عام لوگوں کے روزگار اور ان کی نوکری پر پڑا ہے۔ ان 9 سال کے اندر مسلسل تیزی سے بڑھتی بے تحاشہ مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے سبب بھی پورا ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ ملک کو تباہ ہوتے دیکھ سماجی انصاف و سیکولرزم کے علمبرداروں اور ملک کے دانشوران و مفکرین کو شدید خطرہ لاحق ہوا اور اسے شدت سے محسوس کرتے ہوئے اس کے سدباب کے لیے راہیں تلاش کرنی شروع کر دی جن میں بلاشبہ آنجہانی جئے پرکاش نارائن، ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اور کرپوری ٹھاکر کے شاگرد بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا نام سرفہرست ہے جنہوں نے ایک بڑی پہل کرتے ہوئے 10 اگست 2022 کو بی جے پی کو بہار کے اقتدار سے بے دخل کر دیا اور اس کی بڑھتی فرقہ پرستی پر روک لگانے کے لیے سماجی انصاف و سیکولرزم کے علمبردار لالو پرساد یادو سے رابطہ کرکے ان کی پارٹی آر جے ڈی سمیت کانگریس و بائیں محاذ کے ساتھ مل کر عظیم اتحاد کی نئی حکومت تشکیل کر دی۔ نتیش کمار کا یہ جرأت مندانہ فیصلہ و قدم ثابت ہوا۔ انہوں نے بہار کے بعد مرکز کے اقتدار سے بھی بی جے پی کو بے دخل کرنے کے پختہ عزائم کے ساتھ ملک گیر مہم شروع کر دی۔


13 ریاستوں کا دورہ کر کے نتیش کمار نے 19 اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین سے ملاقات کی اور ’مشن 2024‘ کو لے کر نہ صرف اپنا نظریہ ان کے سامنے رکھا، بلکہ انھیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کامیاب کوشش بھی کی۔ دوسرے مرحلے میں بھی انہوں نے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی پرساد یادو کے ساتھ اور جے ڈی یو کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ درجن بھر ریاستوں کا دورہ کرکے اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین کے ساتھ بات چیت کی اور ملک گیر پیمانے پر وسیع اپوزیشن اتحاد کے قیام کو ضروری بتاتے ہوئے اس کے لیے مضبوط لائحہ عمل تیار کئے جانے کی تجویز پیش کی جسے سبھی اپوزیشن رہنماؤں نے قبول کرلیا۔ دیگر تمام اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے اپوزیشن پارٹی کانگریس بھی 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر اور مرکز کے اقتدار سے بی جے پی کو ہٹانے کے اپنے نشانے کے تحت وسیع اپوزیشن اتحاد کے لیے رضامند ہوگئی۔

نتیش کمار نے تیجسوی یادو کے ساتھ کلکتہ پہنچ کر ٹی ایم سی سربراہ و مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی سے بات چیت کی تو ممتا بنرجی نہ صرف اپوزیشن اتحاد کے لیے تیار ہوگئیں بلکہ انہوں نے تبدیلی اقتدارکے عظیم محرک آنجہانی جئے پرکاش نارائن کو یاد کرتے ہوئے ان کی جیسی پھر ایک تحریک کی ضرورت محسوس کی اور تجویز پیش کی کہ تبدیلی کی سرزمین بہار میں ہی اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین کی میٹنگ منعقد کی جائے۔ ممتا کی اس تجویز کو نتیش نے بخوشی قبول کرتے ہوئے پٹنہ میں میٹنگ کا فیصلہ کیا۔ دہلی جاکر کانگریس رہنما راہل گاندھی سے ملے تو وہ بھی نہ صرف اپوزیشن اتحاد کے لیے رضامند ہوگئے بلکہ پٹنہ میں ہونے والی میٹنگ میں اپنی شرکت کو بخوشی منظوری دے دی۔ راہل گاندھی نے فراخدلی اور جذبہ ایثار و قربانی کا پُرجوش مظاہرہ کیا جس کی اس وقت ملک کو شدید ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔