منی پور تشدد: وزارت داخلہ کے ذریعہ تشکیل ’امن کمیٹی‘ سے میتئی اور ککی طبقہ غیر مطمئن، کمیٹی سے علیحدگی کا فیصلہ

منی پور میں نسلی تشدد کے بعد 105 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 320 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، منی پور سالمیت کوآرڈنیشن کمیٹی کے کنوینر جتندر ننگومبا نے کہا کہ وہ امن کمیٹی کے ڈھانچہ سے بے حد غیر مطمئن ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>منی پور میں خوف کا ماحول، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

منی پور میں خوف کا ماحول، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

مرکزی حکومت کے ذریعہ منی پور میں امن بحالی کے لیے کی جا رہی کوششوں کو آج زبردست جھٹکا لگا ہے۔ ’میتئی ناگرک سماج سنگٹھن‘ نے منگل کے روز امن کمیٹی سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا، جبکہ ایک سرکردہ ککی تنظیم نے بھی کمیٹی کی یکطرفہ تشکیل پر ناخوشی ظاہر کی ہے۔ اس تنظیم نے کمیٹی میں وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی شمولیت پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔

واضح رہے کہ گورنر انوسوئیا اوئیکے کی صدارت والی 51 رکنی امن کمیٹی کی تشکیل گزشتہ ہفتہ مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعہ ریاست کے مختلف نسلی گروپوں کے درمیان امن کے عمل کو بہتر انداز میں آگے بڑھانے کے لیے کی گئی تھی۔ اس میں امن مذاکرہ اور یکسر مخالف پارٹیوں کے درمیان بات چیت شامل تھی۔ منی پور میں گزشتہ 3 مئی سے شروع ہوئے نسلی تشدد میں 105 سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 320 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ منی پور سالمیت کوآرڈنیشن کمیٹی (سی او سی او ایم آئی) کے کنوینر جتندر ننگومبا کا کہنا ہے کہ وہ امن کمیٹی کے ڈھانچہ سے بے حد غیر مطمئن ہیں۔


ننگومبا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’سی او سی او ایم آئی نے اس کمیٹی کو خارج کر دیا، کیونکہ وادی حلقہ میں رہنے والے لوگوں کے جذبات ککی شورش پسند گروپوں کے خلاف ہیں اور ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ پہلے انھیں شورش پسندوں کے ساتھ مہم بند کرنی چاہیے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ منی پور میں امن تب تک نہیں قائم ہو سکتا، جب تک کہ نارکو-دہشت گردی اور ناجائز رہائش کے دباؤ والے ایشوز کا اثردار ڈھنگ سے حل نہیں نکالا جاتا۔ لیکن حکومت نے اس سمت میں کچھ بھی نہیں کیا۔

سی او سی او ایم آئی کنوینر کا کہنا ہے کہ ’’ہم لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور لوگ ککی شورش پسندوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔ جب تک شورش پسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی، ہم اس امن کمیٹی کو خارج کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کمیٹی میں ان کو بغیر کوئی بات چیت کیے ہی شامل کیا گیا تھا۔


دوسری طرف ککی امپی منی پور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے سربراہ کو پیشگی و مناسب مشورہ اور اطلاع کے بغیر امن کمیٹی کے رکن کی شکل میں نامزد کیا گیا تھا اور گروپ نے حکومت کے یکطرفہ فیصلے پر اعتراض ظاہر کیا تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ ریکارڈ پر رکھا جانا چاہیے کہ وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی قیادت والی منی پور حکومت نے فرقہ وارانہ حملوں کو انجام دے کر اور ککیوں کے خلاف آرامبائی تینگول اور میتئی لیپون جیسے شدت پسند گروپوں کو اسپانسر کر کے سبھی اعتبار کو ختم کر دیا ہے۔‘‘ ککی تنظیم نے کہا کہ کیم نے بار بار دہرایا ہے کہ اس نے ہمیشہ امن کے نظریہ کو سنجویا ہے اور اس کا استقبال کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔