’بھگوان کا دَرشن کرنے کے لیے بچولیے نہیں چاہیے، 22 جنوری کی تقریب مذہبی نہیں‘، کانگریس نے پھر کیا بی جے پی پر حملہ

پون کھیڑا نے کہا کہ ’’یہ کوئی سیاسی پارٹی طے نہیں کر سکتی کہ میں اپنے بھگوان سے ملنے جاؤں یا نہ جاؤں، مندر میں کم از کم کسی انسان کے ذریعہ نہ تو کسی کو بلایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کو روکا جاتا ہے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>پون کھیڑا اور سپریا شرینیت، تصویر ویڈیو گریب</p></div>

پون کھیڑا اور سپریا شرینیت، تصویر ویڈیو گریب

user

قومی آوازبیورو

کانگریس کے سرکردہ لیڈران 22 جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس تعلق سے کانگریس نے گزشتہ روز بیان جاری کر وضاحت پیش کر دی تھی اور تقریب میں شامل نہ ہونے کے وجوہات بھی بتا دیے تھے۔ پارٹی نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ پران پرتشٹھا تقریب پوری طرح سے سیاسی ہے اس لیے وہ دعوت نامہ قبول نہیں کر رہے۔ آج ایک بار پھر کانگریس نے اس تعلق سے پریس کانفرنس کر بی جے پی پر شدید حملہ کیا ہے۔ جمعہ کے روز منعقد پریس کانفرنس میں کانگریس نے دعویٰ کیا کہ 22 جنوری کو ایودھیا میں منعقد ہونے والی پران پرتشٹھا تقریب مذہبی نہیں بلکہ پوری طرح سیاسی ہے، کیونکہ اسے اصول کے مطابق اور چاروں پیٹھوں کے شنکراچاریہ کی دیکھ ریکھ میں نہیں کیا جا رہا۔

کانگریس کے میڈیا ڈپارٹمنٹ چیف پون کھیڑا اور سپریا شرینیت نے پریس کانفرنس میں اس تعلق سے اپنی اپنی باتیں سبھی کے سامنے رکھیں۔ پون کھیڑا نے بی جے پی کے ذریعہ کانگریس اور اس کے لیڈران پر کیے جا رہے حملوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’بھگوان رام کے دَرشن (زیارت) کے لیے کسی بچولیے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس تقریب کے لیے 22 جنوری کی تاریخ کا انتخاب لوک سبھا الیکشن کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔‘‘


اس دوران پون کھیڑا نے واضح کیا کہ پارٹی کے اندر ہر کوئی اپنے عقیدہ پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہے اور پارٹی کے سرکردہ لیڈران نے صرف 22 جنوری کی تقریب کے دعوت نامہ کو نامنظور کیا ہے۔ دراصل بی جے پی نے ایودھیا میں رام مندر پران پرتشٹھا تقریب میں شامل ہونے کے لیے کانگریس کے تین سرکردہ لیڈران کو بھیجے گئے دعوت نامہ کو نامنظور کرنے سے متعلق پارٹی کے فیصلے کی جمعرات کے روز تنقید کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اس سے ہندوستان کی ثقافت اور ہندو مذہب کے تئیں پارٹی کی فطرت مخالفت ظاہر ہوتی ہے۔ حالانکہ کانگریس کے تین اہم لیڈران ملکارجن کھڑگے، سونیا گاندھی اور ادھیر رنجن چودھری نے اس تقریب میں شرکت کی دعوت کو یہ کہتے ہوئے مخلصانہ انداز میں مسترد کر دیا تھا کہ یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی تقریب ہے، اور اس کا مقصد انتخابی فائدہ حاصل کرنا ہے۔

بہرحال، پون کھیڑا نے 12 جنوری کو نامہ نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کوئی سیاسی پارٹی طے نہیں کر سکتا کہ میں اپنے بھگوان سے ملنے جاؤں یا نہ جاؤں۔ مندر میں کم از کم کسی انسان کے ذریعہ نہ تو کسی کو بلایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کو روکا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو ایک الٹی گنگا بہائی جا رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’کسی بھی مندر میں پران پرتشٹھا کچھ اصولوں اور دھرم شاستر کے حساب سے ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ تقریب مذہبی ہے؟ اگر یہ تقریب مذہبی ہے تو کیا یہ مذہبی رسوم یا دھرم شاستر کے مطابق کیا جا رہا ہے، اور کیا یہ چاروں شنکراچاریہ کے مشورے اور ان کی دیکھ ریکھ میں کیا جا رہا ہے؟‘‘ پون کھیڑا کا کہنا ہے کہ چاروں شنکراچاریہ واضح طور سے کہہ چکے ہیں کہ ایک ادھورے مندر میں پران پرتشٹھا نہیں کی جا سکتی۔


پون کھیڑا نے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’میں یہ برداشت نہیں کروں گا کہ ایک سیاسی پارٹی کے کارکنان میرے اور میرے بھگوان کے درمیان بچولیے بن کر بیٹھ جائیں۔ مجھے بھگوان کے دَرشن کے لیے بچولیے کی ضرورت کیوں پڑے گی؟ اس پوری تقریب میں مذہب اور عقیدہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا، صرف اور صرف سیاست دکھائی دے رہی ہے۔‘‘ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کانگریس لیڈر کہتے ہیں ’’ایک شخص کے سیاسی تماشے کے لیے ہم اپنے بھگوان اور عقیدہ کے ساتھ کھلواڑ نہیں دیکھ سکتے... یہ مذہبی تقریب نہیں ہے، یہ پوری طرح سے سیاسی انعقاد ہے۔‘‘

کانگریس لیڈر سپریا شرینیت نے بھی پریس کانفرنس میں بی جے پی اور مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’جہاں ہمارے شنکراچاریہ نہیں جا رہے، ہم وہاں نہیں جا رہے ہیں۔ بہت ہی خطرناک سیاست کی جا رہی ہے۔ بی جے پی نے سناتن مذہب کو ہی تقسیم کرنے کا کام کیا ہے۔ شنکراچاریہ کی بے عزتی ہندو مذہب کے ماننے والوں کی بھی بے عزتی ہے۔‘‘ ساتھ ہی سپریا شرینیت نے اعلان کیا کہ اتر پردیش کانگریس کمیٹی کے سبھی سرکردہ لیڈران 15 جنوری کو مکر سنکرانتی کے موقع پر ایودھیا جا رہے ہیں۔


رام راج کا تذکرہ کرتے ہوئے سپریا شرینیت نے کہا کہ ’’رام راج تو ایسا نہیں تھا کہ کسی قبائلی کے سر پر پیشاب کی جائے، بھگوان رام نے تو شبری کے بیر کھائے تھے۔ سچائی یہ ہے کہ جن مذہبی تقاریب کا کام ہمارے سادھو سَنتوں کو کرنا چاہیے، بی جے پی نے اس کا بیڑا بھی اٹھا لیا ہے، اس لیے عام لوگ افسردہ و ناراض ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم نے صرف 22 جنوری کو (رام مندر) جانے سے انکار کیا ہے۔ کانگریس ذاتی عقیدہ کو بالاتر مانتی ہے۔ ہم مندر، مسجد، گرودوارہ، گرجا گھر گئے ہیں اور آگے بھی جاتے رہیں گے۔ اتر پردیش کانگریس کمیٹی اور وہاں کے تمام لیڈران جنرل سکریٹری انچارج کے ساتھ 15 جنوری کو ایودھیا دَرشن کے لیے جا رہے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔