لوک سبھا انتخابات: مذہب کی ترقی نہیں ملک کی ترقی ہماری ترجیح ہونی چاہئے... سید خرم رضا

شنکرآچاریوں کی رام مندر کی پران پرتشٹھا تقریب میں عدم شرکت نے کانگریس کو بولنے کی طاقت دے دی ہے اور پارٹی لیڈران اب کھل کر کہنے لگے ہیں کہ مجوزہ تقریب مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔

کانگریس۔ بی جے پی، تصویر آئی اے این ایس
کانگریس۔ بی جے پی، تصویر آئی اے این ایس
user

سید خرم رضا

ملک چاہے کتنا بھی ’رام مئے‘ ہو رہا ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتیں بنیادی طور پر جو بھی قدم اٹھا رہی ہیں وہ عام انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اٹھا رہی ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ عام انتخابات میں بس اب  تین ماہ کے آس پاس رہ گئے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی قیادت والی حکمراں جماعت بی جے پی کی چاہے رام مندر میں 22 جنوری کو ہونے والی پران پرتشٹھا کی تقریب ہو یا پھر راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ شروع کر نا ہو، سب کا تعلق عام انتخابات کے لیے اپنے مدے کو آگے بڑھانے سے ہے۔

ذرائع ابلاغ پر اگر نظر ڈالی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پورا ملک رام مئے ہو گیا ہے۔ میڈیا میں جہاں کانگریس کے ذریعہ 22 جنوری کی تقریب کے لیے دعوت نامہ کو قبول نہ کیے جانے پر اپنی تشویش کا اظہار کرنا ہے اور کانگریس کو اس انکار کا کتنا بڑا نقصان ہونے والا ہے اس پر بحث مباحثے زور و شور سے جاری ہیں، وہیں ہندو مذہب کے سب سے اعلی مذہبی قیادت یعنی شنکرآچاریوں کا بھی اس تقریب میں شرکت نہ کرنے پر میڈیا میں اتنا شور نہیں سنائی دے رہا۔ شنکرآچاریوں کی جانب سے اٹھائے گئے مسئلوں پر بھی کوئی زیادہ باتیں نہیں سنائی دے رہیں۔ بہر حال شنکرآچاریوں کی عدم شرکت نے کانگریس کو بولنے کی طاقت دے دی ہے اور پارٹی لیڈران اب کھل کر کہنے لگے ہیں کہ مجوزہ تقریب مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔


بی جے پی سے یہ سوال پوچھے جا رہے ہیں کہ مندر کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے رام مندر کا پران پرتشٹھا کیوں کیا جا رہا ہے؟ یہ صاف کرتا ہے کہ یہ سب کرنے کے پیچھے بی جے پی کا مقصد واضح ہے، وہ آنے والے عام انتخابات اسی مدے پر لڑے گی۔ بی جے پی کے ذریعہ ایسا کرنے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ پہلی اور سب سے بڑی وجہ بی جے پی کے حامی ووٹرس کا بہت زیادہ مذہبی ہونا، دوسری وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو دس سال اقتدار میں ہو گئے ہیں اور حکومت کے خلاف اینٹی انکمبینسی یعنی اقتدار مخالف جذبات کا سامنا ہے، اور تیسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں حکمراں جماعت کے ذہن میں ملک کی ترقی کم اور مذہب کی ترقی زیادہ رہی۔ اس لئے رام مندر اور مذہب کے نام پر انتخابات لڑنا بی جے پی کی مجبوری ہے۔

دوسری جانب کانگریس کا ماننا ہے کہ جو اس کو راہل گاندھی کی پہلی ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے کامیابی ملی ہے اس کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اسی لئے اس نے راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ نکالنے کا پروگرام بنایا ہے۔ کانگریس نہیں چاہتی کہ ملک کو کسی ایک مذہبی رنگ میں رنگا جائے، اس لیے عوام کے بنیادی مدے اٹھانا چاہتی ہے اور اس کو اس بات کا احساس ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس کی بات عوام تک نہیں پہنچ سکتی، کیونکہ وہ مین اسٹریم میڈیا کے رویہ سے مایوس ہو گئی ہے۔ اس لیے اس نے عوام سے مل کر ان کو ملک کے سامنے درپیش مسائل سے آگاہ کرنے کے لیے یہ یاترا کا طریقہ اپنایا ہے۔


دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کا اپنا ایک ووٹ بینک اور ایک نظریہ ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ کانگریس کے ووٹ بینک اور نظریہ کی ترجیح بنیادی طور پر ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح پر مبنی نظر آتی ہے جبکہ برسر اقتدار جماعت بی جے پی ملک کی اکثریت کے ایک خاص طبقہ کو ذہن میں رکھتی ہے اور اسی کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ سب کا ساتھ اور سب کی ترقی کی بات ضرور کرتی ہے مگر اس کی قومی سیاست میں ایک ملک کے طبقہ کے مذہبی جذبات حاوی رہتے ہیں۔ حکمراں جماعت کے اس رویہ کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا اقلیتی طبقہ مایوسی کا شکار ہے اور وہ کہیں نہ کہیں کانگریس کے قریب دکھائی دیتا ہے۔

عام انتخابات ویسے تو ہمیشہ ہی بہت اہم ہوتے ہیں لیکن اس مرتبہ مبصرین کی رائے میں زیادہ اہم ہیں  کیونکہ ان انتخابات کے نتائج سے یہ طے ہونا ہے کہ ملک عوامی مدوں پر آگے بڑھے گا یا ملک مذہبی راہ پر چلے گا۔ ایک سیاسی رہنما نے ایک بات چیت میں کہا تھا کہ جب ملک میں غربت بڑھتی ہے تو اس کے ساتھ مذہبی ذہنیت کو بھی فروغ ملتا ہے۔ اس لیے عوام کی ترجیح مذہبی ذہنیت کا فروغ نہیں بلکہ ملک کی ترقی ہونی چاہئے کیونکہ مذہب اس کا ذاتی فعل ہے اور خوشحالی کا تعلق پورے ملک سے ہے، یعنی ہمیں غربت نہیں بڑھانی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔