مولانا ارشد مدنی عبادت گاہ قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے خلاف سپریم کورٹ پہنچے

سال 2020 میں سپریم کورٹ میں پلیس آف ورشپ قانون کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔

مولانا ارشد مدنی تصویر / یو این آئی
مولانا ارشد مدنی تصویر / یو این آئی
user

یو این آئی

نئی دہلی: گیان واپی مسجد کا قضیہ اور سپریم کورٹ میں عبادت گاہ قانون کے خلاف دائر عرضیوں کی مخالفت کے لئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے، جس پر گرمیوں کی تعطیل کے بعد سماعت متوقع ہے۔ یہ اطلاع جمعیۃ علمائے ہند کی جاری کردہ پریس ریلیز میں دی گئی ہے۔ ریلیز کے مطابق جہاں گیان واپی مسجد مقدمہ ایک جانب ورانسی کی ضلعی عدالت میں چل رہا ہے، وہیں سپریم کورٹ میں بھی ایک سے زائد ایسی عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں، جس میں پلیس آف ورشپ قانون کو غیر آئینی قرار دینے کی عدالت سے گزارش کی گئی ہے۔

سال 2020 میں سپریم کورٹ میں پلیس آف ورشپ قانون کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کرنے والی دو پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں ایک پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے اشونی کمار اپادھیائے (ایڈوکیٹ) نامی شخص نے داخل کی تھی جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن 1246/2020 ہے۔ متذکرہ پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند نے بذریعہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول مداخلت کار کی عرضداشت سپریم کورٹ میں داخل کردی ہے، جس پر گرمیوں کی تعطیلات کے بعد اس پٹیشن پر سماعت متوقع ہے۔


گلزار اعظمی نے کہا کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل مداخلت کار کی پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4 کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے، لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک بار پھر خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پٹیشن میں مزید کہا کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانونی 1991 نافذ کرنے کے دو مقاصد تھے، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا تھا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔ عرضداشت میں تحریر کیا گیا ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے (پیرگراف 99، صفحہ 250) نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولر ملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔


عرضداشت میں مزید کہا گیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی ذمہ داری لے گی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولرازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے۔

اس ضمن میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ پلیس آف ورشپ قانون 18 ستمبر 1991 کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق 15،اگست 1947 کو ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔


واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہیت مہا سنگھ و دیگر کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی گئی ہے جس میں انہوں نے عبادت کے مقام کے قانونی یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ اس پٹیشن پر 10/ جولائی 2020 کو سپریم کورٹ میں سماعت عمل میں آئی تھی، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول و دیگر پیش ہوئے تھے۔ متذکرہ دونوں مداخلت کار کی عرضیوں میں گلزار احمد اعظمی مدعی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔