مہاراشٹر انتخابات: الیکشن کمیشن کے پاس اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے دوران جاری ’پری-نمبرڈ سلپس‘ کی جانکاری نہیں
آر ٹی آئی کے تحت الیکشن کمیشن کو درخواست بھیجنے والے وینکٹیش نایک کا کہنا ہے کہ ’’یہ ناقابل یقین ہے کہ میں نے جو معلومات مانگی ہیں اس کی اطلاع الیکشن کمیشن کو نہیں دی گئی۔‘‘

ووٹرس، تصویر@ECISVEEP
الیکشن کمیشن سے آر ٹی آئی (حق اطلاعات) کے تحت ایک سوال کیا گیا جس کے جواب میں کمیشن نے بتایا کہ اس کے پاس مہاراشٹر میں نومبر 2024 میں ہوئے اسمبلی انتخاب یا اپریل-مئی 2024 میں ہوئے عام انتخاب کے بعد تمام پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائڈنگ افسران کی طرف سے جمع کردہ حلقہ وار ’پری-نمبرڈ سلپس‘ (پرچیوں) کی کُل تعداد کی جانکاری نہیں ہے۔
آر ٹی آئی کے ذریعہ سوال کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو کے ڈائریکٹر وینکٹیش نایک کی طرف سے پوچھا گیا تھا۔ انھوں نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بھیجی گئی درخواست میں نشاندہی کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر پریزائڈنگ افسر کے لیے شائع کتابچہ 2023 کے ایڈیشن میں پیرا نمبر 1.12 میں فراہم کردہ طریقۂ کار، جو پیراگراف نمبر 7.1.2 کے ساتھ ہے، کے مطابق پریزائیڈنگ آفیسر کو اسمبلی اور عام انتخابات کے دوران ان کے ذریعہ جاری کردہ حلقہ وار مکمل پری-نمبرڈ سلپس کی جانکاری ہونی چاہیے۔ لیکن جواب میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’’آپ کو مطلع کرنا ہے کہ آپ کی طرف سے مانگی گئی معلومات کمیشن کے پاس موجود نہیں ہے۔‘‘
اس معاملے میں وینکٹیش نایک نے حیرانی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’کم از کم یہ حیرت انگیز ضرور ہے، کیونکہ الیکشن کمیشن انتخابی نظام کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے پاس انتخابات کرانے کے لیے آئینی و قانونی اختیارات دونوں ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’الیکشن کمیشن کا انتخابی مشینری پر مکمل کنٹرول ہونا ضروری ہے، اور اس میں سی ای اوز، آر اوز، اور الیکشن مبصرین کے ذریعے جاری حلقہ کی سطح سے نرواچن سدن تک معلومات کا بہاؤ شامل ہے۔ یہ ناقابل یقین ہے کہ میں نے جو معلومات مانگی ہیں اس کی اطلاع الیکشن کمیشن کو نہیں دی گئی۔ اگر کوئی یہ مان بھی لے کہ ان کا جواب درست ہے، تو آر ٹی آئی ایکٹ انہیں یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ معلومات حاصل کرنے کے لیے اس جگہ درخواست کریں جہاں سے یہ جانکاریاں مل سکتی ہیں۔ وہ تو ایک بٹن کے کلک پر درخواست کو ایسے دفاتر میں بھیج سکتے ہیں جہاں مطلوبہ جانکاری دستیاب ہو۔ ‘‘
جہاں تک پیراگراف 7.1.2 کی بات ہے، تو اس میں کہا گیا ہے کہ ’’ووٹنگ ختم ہونے کے مقررہ وقت سے کچھ منٹ پہلے پولنگ سنٹر کی سرحد کے اندر ان سبھی لوگوں کو بتا دیں کہ جو ووٹ کرنے کے لیے انتظار کر رہے ہیں، انھیں باری باری سے ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے گی۔ ایسے سبھی ووٹرس کو اپنے ذریعہ مکمل طور سے دستخط شدہ پرچیاں تقسیم کریں، جنھیں اس وقت قطار میں کھڑے ووٹرس کی تعداد کے مطابق سلسلہ وار 1 نمبر سے آگے کی طرف تقسیم کیا جانا چاہیے۔ قطار میں لگے آخری ووٹر کو پرچی نمبر 1 دینی چاہیے، اور اس کے سامنے اگلے ووٹرس کو پرچی نمبر 2 دی جانی چاہیے، اور پھر اسی طرح آگے بھی جاری رکھیں۔ ووٹنگ کے لیے طے وقت ختم ہونے کے بعد بھی ووٹنگ کا عمل اس وقت تک جاری رکھیں جب تک کہ یہ سبھی ووٹرس اپنا ووٹ نہ ڈال دیں۔ یہ یقینی کرنے کے لیے پولیس یا دیگر ملازمین کو تعینات کریں کہ مقررہ وقت کے بعد کسی کو بھی قطار میں شامل ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ اسے ممکن بنایا جا سکتا ہے اگر سبھی ووٹرس کو پرچیوں کی تقسیم کرتے وقت قطار میں کھڑے آخری ووٹر کو پرچی نمبر 1 دی جائے اور اس پھر اس کے سامنے کی طرف بڑھا جائے۔‘‘
کتابچہ (ہینڈ بک) کے مطابق ضمیمہ 52 میں وضاحت کی گئی ہے کہ پریزائیڈنگ آفیسر کی ڈائری میں پولنگ اسٹیشن کے بارے میں کئی طرح کی جانکاریاں شامل ہونی چاہئیں، یعنی فراہم کردہ اور استعمال شدہ مواد، فراہم کردہ اور استعمال شدہ مشینیں، موجود پولنگ ایجنٹس، ووٹر ٹرن آؤٹ کی تفصیلات، کتنے کو ’ٹنڈر ووٹ‘ ڈالنے کی اجازت دی گئی، چیلنج کیے گئے ووٹوں کی تعداد، اور پولنگ اسٹیشن میں درج ذیل ٹائم سلاٹس کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد: صبح 9-7 بجے، صبح 11-9 بجے، صبح 1-11 بجے، دوپہر 3-1 بجے، شام 5-3 بجے۔ ڈائری میں پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد قطار میں کھڑے ووٹرز کو جاری کی گئی سلپس (پرچی) کی تعداد بھی درج ہونی چاہیے۔ یہ معلومات سیکٹر آفیسر کی رپورٹ میں بھی درج ہے، جس کا خاکہ سیکٹر آفیسر کی ہینڈ بک کے ضمیمہ VI میں فراہم کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 20 نومبر کو ہوئے ریاستی انتخابات کے لیے رجسٹرڈ ووٹرس کی تعداد 97,793,350 تھی، جن میں 64,592,508 افراد نے اپنا ووٹ ڈالا۔ اس کے مقابلے میں عام انتخابات کے دوران رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 92,890,445 تھی اور ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد 56,969,710 تھی۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر، ریاست میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں تقریباً 50 لاکھ (49,02,905) کا اضافہ ہوا، جبکہ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 75 لاکھ (76,22,7980) سے زیادہ ہوئی۔
اس معاملے میں کانگریس پارٹی نے الیکشن کمیشن میں اپنی شکایت کی تھی، لیکن کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اضافہ جائز ہے۔ پارٹی نے پولنگ کے دن شام 5 بجے اور پھر رات 11.30 بجے الیکشن کمیشن کے ذریعہ جاری کردہ آخری ووٹنگ فیصد کے درمیان ’حیرت انگیز اضافہ‘ پر روشنی ڈالی۔ کانگریس نے یہ بھی بتایا کہ جن 50 اسمبلی سیٹوں پر اوسطاً 50 ہزار ووٹرس کا اضافہ ہوا، ان میں سے برسراقتدار مہایوتی نے 47 پر فتح حاصل کی۔
15 جنوری کو جب کانگریس کے نئے ہیڈکوارٹر کا افتتاح ہوا، تو لوک سبھا میں حزب اختلاف کے قائد اور کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اس بات کو دہرایا کہ جس طرح الیکشن کمیشن انتخابات کا انعقاد کرا رہا ہے، اس سے پارٹی فکرمند ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے بہت واضح طور پر کہا کہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے درمیان اچانک بڑی تعداد میں نئے ووٹرس، تقریباً ایک کروڑ، نمودار ہوئے ہیں، یہ معاملہ فکر کا باعث ہے۔‘‘
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ سال وینکٹیش نایک کے ذریعہ داخل آر ٹی آئی درخواست کا جواب دینے سے جس طرح انکار کیا، اسی طرح ان کی کچھ دیگر آر ٹی آئی درخواستوں پر بھی جانکاری دینے سے انکار کیا ہے۔ نایک کہتے ہیں کہ نہ صرف تقسیم کیے گئے ٹوکن (پرچی) کے بارے میں ڈاٹا ظاہر کرنا، بلکہ پریزائڈنگ افسران اور سیکٹر افسران کے ذریعہ درج کیے گئے دو گھنٹے کے ووٹرس ٹرن آؤٹ بھی یہ صاف کرنے کے لیے اہم ہیں کہ الیکشن کمیشن کے آخری ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار درست ہیں یا نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔