مختلف اقسام کے گھوٹالوں کا سامنا کر رہی مدھیہ پردیش بی جے پی لیڈروں میں تال میل کی کمی سے پریشان

مدھیہ پردیش کے سینئر لیڈروں کے درمیان تال میل کی کمی سے پارٹی پریشان ہے، وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ تنہا اپنی حکومت کے حق میں بیان دیتے نظر آتے ہیں، دیگر لیڈران الگ الگ بیانات دیتے رہتے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>شیوراج سنگھ چوہان، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

شیوراج سنگھ چوہان، تصویر آئی اے این ایس

user

کاشف کاکوی

مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخاب کے بمشکل پانچ ماہ بھی نہیں بچے ہیں اور یہاں بی جے پی اپنی شبیہ بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ مرکزی وزرا بھوپندر یادو اور نریندر سنگھ تومر کو بالترتیب الیکشن انچارج اور الیکشن مینجمنٹ کمیٹی کا کنوینر بنایا گیا ہے۔ جولائی کے آخر تک پانچ ’وجئے سنکلپ یاترا‘ شروع کرنے کے لیے تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ دیگر لیڈران کے علاوہ مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا اور پھگن سنگھ کلستے بھی ان کی قیادت کریں گے۔ ان سب کے باوجود پارٹی انتخاب کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی ہے۔

گزشتہ 18 سال سے یہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اقتدار مخالفت لہر کا خوف تو اسے ہے ہی، حکومت کے طریقے کو لے کر بھی اسے ووٹروں کو بھروسہ دلانا ہے۔ اس مدت کے دوران ہوئے 100 سے زیادہ گھوٹالوں کی بنیاد پر کانگریس اس کے خلاف چارج شیٹ تیار کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اس سے بی جے پی میں ڈر تو ہے ہی، حال میں یکے بعد دیگرے ہوئے دو واقعات سے بھی بی جے پی پریشان ہے اور بیک فٹ پر جانے کو مجبور ہوئی ہے۔ جولائی کے پہلے ہفتہ میں مدھیہ پردیش سلیکشن بورڈ کے ذریعہ منقعد امتحان میں پٹواریوں کی تقرری کے ریزلٹ پر خاصہ وبال ہو گیا۔ اس بورڈ کو ملک بھر میں لوگ ویاپم گھوٹالے کی وجہ سے جانتے ہیں۔ اس گھوٹالے نے 2013 میں ریاست کی بہت بدنامی کرائی تھی۔ اس وقت بھی اسمبلی انتخابات سے پہلے معاملہ سرخیوں میں تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔


ابھی یہ باتیں ظاہر ہوئی ہیں کہ گوالیر-چنبل علاقہ کے ایک ہی سنٹر سے پہلے 10 کامیاب امیدواروں اور کم از کم 140 دیگر کامیاب امیدواروں نے امتحان دیا تھا۔ یہ این آر آئی کالج سنٹر تھا۔ یہ کالج بی جے پی رکن اسمبلی سنجیو کشواہا کا ہے۔ کشواہا پہلے بی ایس پی میں تھے۔ بعد میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس سنٹر سے امتحان دے کر کامیاب ہونے والے تقریباً 6 افراد ایک ہی کنبہ سے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایسے کئی کامیاب امیدواروں کو انگریزی میں 25 میں سے 25 نمبر حاصل ہوئے، جبکہ انھوں نے اپنے دستخط تک ہندی میں کیے تھے۔

چھ ہزار خالی جگہوں کے لیے کم از کم 12.34 لاکھ درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ تقرری امتحان میں 9.74 لاکھ امیدوار بیٹھے تھے۔ آن لائن امتحان بنگلورو کی کمپنی ’ایڈوکویری کیریر ٹیکنالوجی لمیٹڈ‘ نے لیا تھا جس نے بورڈ سے امتحان فیس کے طور پر 168 روپے فی امتحان دہندہ لیا تھا۔ جب نتائج آئے اور بے ضابطگیوں کی باتیں سامنے آئیں تو پہلے تو وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے جوابی کاپی کی دوبارہ جانچ تک ریزلٹ روکنے کا حکم دیا۔ لیکن تنازعہ بڑھنے پر بالآخر انھیں اس کی عدالتی جانچ کا حکم دینا پڑا۔


ویسے ویاپم کی آگ 2013 سے ہی جل رہی ہے۔ اس گھوٹالے میں شامل رہے ممتحن، امتحان دہندگان اور اس گھوٹالے کو سامنے لانے والے لوگوں سمیت اس سے متعلق تقریباً 50 لوگوں کی پراسرار حالت میں موت ہو چکی ہے۔ اس گھوٹالے کی تحقیقات کرنے کے خیال سے ریاست میں آئے ایک صحافی کی بھی دوسرے ہی دن اچانک موت ہو گئی تھی۔ بعد میں اس گھوٹالے کی جانچ سی بی آئی کو سونپ دی گئی۔ اس نے کافی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا، لیکن ریاست میں بیشتر لوگ مانتے ہیں کہ ان سب کے پیچھے رہے اہم لوگوں کو کبھی آنچ بھی نہیں آئی۔

2021 میں ویاپم کو مدھیہ پردیش پروفیشنل اگزامنیشن بورڈ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس وقت بھی 862 زرعی افسران کی تقرریوں میں گھوٹالہ سامنے آیا تھا۔ یہ باتیں سامنے آئی تھیں کہ صف اول میں رہے بیشتر کامیاب امیدوار ایک ہی ذات کے ہیں، ایک ہی کالج اور علاقے کے ہیں اور ان لوگوں نے امتحان میں ایک ہی قسم کی غلطیاں کی ہیں۔ اسے بھی بعد میں رد کر دیا گیا۔ ایسی ہی حالت کی وجہ سے سابق مرکزی وزیر اور سینئر کانگریس لیڈر ارون یادو نے کہا کہ ’’گزشتہ دس سال کے دوران ویاپم کا نام تین مرتبہ بدلا جا چکا ہے، لیکن بورڈ میں بدعنوانی اسی سطح پر بنی ہوئی ہے۔‘‘


کانگریس کا الزام ہے کہ 18 سالہ بی جے پی حکومت کے دوران غذائیت، خاتون و اطفال ترقی، تقرریوں، مڈ ڈے میل، اسکول یونیفارم، آبپاشی، پی ڈی ایس، نرسنگ، 3000 کروڑ روپے کا ای ٹنڈر گھوٹالہ، شجرکاری، مہاکال لوک کوریڈور، کارم ڈیم گھوٹالہ سمیت 100 گھوٹالے یا بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ ویاپم کو اب مدھیہ پردیش ایمپلائی سلیکشن بورڈ (ایم پی ایس ای بی) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے ذریعہ لیے گئے کم از کم 24 تقرری امتحانات جانچ کے گھیرے میں ہیں۔

اتنا ہی نہیں، مبینہ طور پر بااثر لیڈروں کے بوجھ سے بھی یہاں بی جے پی دبی جا رہی ہے۔ شیوراج سنگھ چوہان 2005 سے ہی وزیر اعلیٰ ہیں۔ 2018 انتخابات میں جب بی جے پی کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا تھا، اس وقت وہ حزب مخالف لیڈر بنائے گئے تھے۔ بعد میں بی جے پی نے کانگریس میں ٹوٹ پھوٹ کرائی اور اس کے بعد پارٹی اقتدار پر قابض ہو گئی۔ اس کے بعد سے بھی چوہان ہی وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس عہدہ پر کئی لوگوں نے نگاہ لگا رکھی ہے۔ ان میں مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا اور نریندر سنگھ تومر تو ہیں ہی، ریاستی بی جے پی صدر وی ڈی شرما اور ریاست کے وزیر داخلہ نروتم مشرا بھی پیچھے نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں کیلاش وجئے ورگیہ کا نام اب نہیں اچھلتا۔ مغربی بنگال انتخابات کے وقت پارٹی کی مرکزی قیادت نے انھیں سر پر بیٹھا رکھا تھا، لیکن وہاں ناکام رہنے کی وجہ سے لگتا ہے انھیں اِن دنوں کنارے کر دیا گیا ہے۔


سندھیا او بی سی ہیں اور مانا جاتا ہے کہ مشرا اور شرما دونوں برہمن لیڈروں کے مقابلے انھیں زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔ برہمن اور دیگر اعلیٰ ذاتوں کا سیاسی اثر بھلے ہی نظر آتا ہو، ان ذاتوں کی تعداد کم ہے، اس لیے انھیں زیادہ وقعت نہیں دی جاتی۔ سندھیا کی پیٹھ پر مرکزی قیادت نے ہاتھ رکھا ہوا ہے، لیکن بی جے پی کارکنان کے درمیان ان کی رسائی نہیں ہے۔ ویسے پارٹی نے طے کیا ہوا ہے کہ وہ انتخابات میں کسی کو وزیر اعلیٰ عہدہ کے امیدوار کی شکل میں پیش نہیں کرے گی، لیکن حال میں سامنے آئی تشہیری اشیا میں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ چوہان دونوں کی ہی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ ایسا ہی آگے بھی ہوگا۔

لیکن سینئر لیڈروں کے درمیان تال میل کی کمی سے پارٹی پریشان ہے۔ وزیر اعلیٰ تنہا ہی اپنی حکومت کے حق میں بیان دیتے نظر آتے ہیں۔ پارٹی کے دیگر لیڈران الگ الگ آواز میں بولتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں سیدھی کے شرمناک واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ سیدھی میں ایک بی جے پی لیڈر کے ایک قبائلی کے سر پر پیشاب کرنے کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ وزیر اعلیٰ کو اندازہ تھا کہ یہ ویڈیو انتخاب میں کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے انھوں نے اس قبائلی کو فوراً ہی بھوپال میں وزیر اعلیٰ رہائش مدعو کرنے کا انتظام کیا، وہاں اس سے معافی مانگی، اس کے پیر دھوئے اور ان سب کی ویڈیو بھی جاری کی۔


چوہان نے یہ سب آناً فاناً میں کیا، انھوں نے ان سب کو لے کر نہ تو کسی سے صلاح و مشورہ کیا اور نہ ہی اس موقع پر کسی لیڈر کو مدعو کیا۔ کچھ پارٹی لیڈران نے تو آف دی ریکارڈ یہ تک کہہ دیا کہ وزیر اعلیٰ نے جس طرح کا رد عمل پیش کیا ہے، اس سے پارٹی کو نقصان ہوگا۔

جیوترادتیہ سندھیا نے سیدھی پیشاب واقعہ کی مذمت تو کی، لیکن بس اتنا بھر کہا کہ ایسا عمل کرنے والے کسی پارٹی کے نہیں ہوتے، انھیں سخت سزا ملنی چاہیے۔ وزیر داخلہ نروتم مشرا نے یہ ضرور کہا کہ ’’ملزم کے گھر پر بلڈوزر چلے گا۔‘‘ یہ چلا بھی، حالانکہ بی جے پی کا ایک طبقہ اس سے ناراض بھی ہو گیا۔ ریاستی بی جے پی صدر شرما یہ کہتے سنے گئے کہ یہ واقعہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ایسے لوگوں کو سخت سزا دی جائے گی۔ مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر نے ضرور واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے جس حساسیت کا مظاہرہ کیا، اس کی یقیناً تعریف ہونی چاہیے۔


پٹواری کے امتحان میں بے ضابطگی کا معاملہ سامنے آنے پر وزیر اعلیٰ نے اس کی جانچ کا حکم دیا۔ لیکن وزیر داخلہ نروتم مشرا کی آواز مختلف تھی۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کی گئی ویڈیو میں کہا کہ ’’کمل ناتھ جی، جھوٹا الزام لگا کر آپ دبئی نکل گئے جبکہ کل یعنی 13 جولائی کو بھی میں نے ایک ایک غلط الزام کا جواب دیا ہے۔‘‘ ایک سینئر صحافی کہتے ہیں کہ کم از کم حساس موضوعات پر تو ایک دوسرے کو کاٹنے والی بیان بازی نہیں کرنی چاہیے، لیکن وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کی باتوں سے تو یہی جھلک رہا ہے کہ ان دونوں میں بھی تال میل نہیں ہے۔

بے روزگاری سے نمٹنے اور نوجوانوں کو روزگار دینے میں ناکامی، تقرری امتحانات میں گھوٹالہ اور سوالنامہ کے لیک ہونے کے معاملوں نے بھی حکومت کو کمزور ثابت کیا ہے۔ اس لیے حیرانی نہیں کہ مدھیہ پردیش میں لوگ متبادل تلاش کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔