’شوہر اور بیٹے کو بے رحمی سے مار دیا، بیٹی سے درندگی کی‘، برہنہ کی گئی لڑکی کی والدہ نے بیان کیا درد

ایک پرائیویٹ چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں متاثرہ کی والدہ نے بتایا کہ ’’پرتشدد بھیڑ نے کیمرے کے سامنے ان کی بیٹی کو بے لباس کر کے پورے گاؤں میں گھمایا اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

علامتی تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

منی پور میں دو خواتین کو برہنہ کر کے گاؤں میں گھمانے والے 5 ملزمین کی گرفتاری اب تک ہو چکی ہے، لیکن اس کارروائی کے باوجود متاثرہ کنبوں کے ذہن سے اس تکلیف دہ واقعہ کو نکال پانا شاید ہی ممکن ہو۔ جن دو لڑکیوں نے اس بربریت کا سامنا کیا ہے، ان میں سے ایک کی والدہ جب آپ بیتی سنانے کی کوشش کرتی ہے تو آنکھوں سے دریا رواں ہو جاتا ہے۔ انسانیت کو جھنجھوڑ دینے والی اس ویڈیو کے بعد جب بات پھیلی تو متاثرین کا درد بھی سامنے آنا شروع ہوا۔ ایک انٹرویو متاثرہ لڑکیوں میں سے ایک کی والدہ کا بھی سامنے آیا ہے جس میں وہ اپنی بے بسی اور حکومت کی بے توجہی بیان کر رہی ہیں۔

ہندی نیوز پورٹل ’ٹی وی 9 بھارت وَرش‘ پر شائع ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ کی والدہ نے ایک انٹرویو میں اپنی داستان سنا کر حکومت کی ناکامی سے پردہ اٹھا دیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اب ان کے پاس واپس گاؤں جا پانا ممکن نہیں ہوگا۔ پھر اس لمحہ کو یاد کرتے ہوئے وہ روتے روتے نیم بیہوشی کے عالم میں چلی جاتی ہے، ان کے منھ سے الفاظ نکلنے بند ہو جاتے ہیں۔ منی پور حکومت پر الزام لگاتے ہوئے متاثرہ کی ماں نے کہا کہ حکومت نے تشدد کو روکنے کے لیے مناسب اقدام نہیں کیے۔ حکومت نے وہاں کے لوگوں کی سیکورٹی کے لیے بھی ٹھیک سے انتظام نہیں کیا۔


ایک پرائیویٹ چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں متاثرہ کی والدہ نے بتایا کہ ’’پرتشدد بھیڑ نے ان کے شوہر اور بیٹے کو بے رحمی سے مار دیا۔ کیمرے کے سامنے ان کی بیٹی کو بے لباس کر کے پورے گاؤں میں گھمایا گیا اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔‘‘ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ شرمناک واقعہ منی پور میں ہوئے تشدد کے ایک دن بعد، یعنی 4 مئی کو پیش آیا۔ ماں نے اپنی تکلیف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنے چھوٹے بیٹے سے محروم ہو گئی، جو میری زندگی کی پوری امید تھی۔ اچھی تعلیم کے لیے اسے اسکول بھیجا، لیکن اب اس کے والد بھی نہیں بچے۔ اس لیے جب بھی میں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے کوئی امید نظر نہیں آتی۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ گاؤں میں میتئی اور کوکی طبقات کے درمیان پوری طرح سے بھروسہ ٹوٹ جانے کے بعد تشدد کا پیمانہ بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں ان کے ذہن میں گھر واپس لوٹنے کا خیال بھی نہیں آتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہمارے پاس گاؤں جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ واپس جانے کا خیال میرے دماغ میں آتا ہی نہیں۔ ہمارا گھر جلا دیا گیا، کھیت جلا دییے گئے، میں ایسے میں واپس کرنے بھی کیا جاؤں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔