کھرگون تشدد: خوفزدہ مسلم علاقہ چھوڑنے پر مجبور، کئی لوگوں نے مسجدوں میں لی پناہ

ایک کانگریس کارکن کا کہنا ہے کہ ’’علاقے کے کچھ خوفزدہ مسلمانوں نے اپنے رشتہ داروں کے یہاں پناہ لے لی ہے اور کچھ لوگ مسجدوں کے اندر رہنے کو مجبور ہیں۔‘‘

کھرگون
کھرگون
user

قومی آوازبیورو

رام نومی کے موقع پر ہندوتوا بریگیڈ کی طرف سے پیدا کیے گئے فرقہ وارانہ تشدد نے مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق فرقہ وارانہ تشدد سے متاثر اور خوفزدہ ہزاروں مقامی مسلمان نقل مکانی کو مجبور ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے قریبی مساجد میں پناہ لے رکھی ہے۔ ایک مقامی کارکن نے ’نیشنل ہیرالڈ‘ کے ساتھ جو ویڈیو شیئر کی، اس میں مسلمانوں کو مسجد کے فرش پر لیٹا دکھایا گیا ہے۔ تشدد کے وقت جائے وقوع سے بھاگ کر اپنی جان بچانے والی ایک مسلم خاتون نے بتایا کہ فسادیوں نے اس کا گھر تک جلا دیا تھا۔ معمولی ملازمت کر اپنے خاندان کی پرورش کرنے والی اس خاتون کا کہنا ہے کہ ’’میرا پورا گھر جلا دیا گیا۔ میری تین بیٹیاں ہیں، اور اب ہم مسجد میں سونے کے لیے مجبور ہیں۔‘‘

تشدد کے سبب علاقے سے بھاگ کر اپنی جان بچانے والوں کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکتا، لیکن کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک تقریباً 1000 مسلمان محفوظ مقامات کی تلاش میں علاقے کو چھوڑ چکے ہیں۔ کانگریس کے ایک کارکن کا کہنا ہے کہ ’’علاقے کے کچھ خوفزدہ مسلمانوں نے اپنے رشتہ داروں کے یہاں پناہ لی ہے، کچھ لوگ مسجدوں کے اندر رہنے کو مجبور ہیں۔‘‘ کانگریس کارکن کی بات کی تائید کرتے ہوئے یوتھ کانگریس لیڈر سومل ناہٹا نے کہا کہ ’’بی جے پی حکومت نے یہاں پر امتیازی اقدامات کیے ہیں۔‘‘ ناہٹا کا کہنا ہے کہ ’’کسی کو بھی نہیں بخشا جانا چاہیے، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان۔ قصورواروں کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کیا جانا چاہئے اور شیوراج سنگھ حکومت کو انصاف کو یقینی بنانا چاہئے۔‘‘ وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ’’حالانکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے مکانات اور املاک کو بلڈوز سے گرا دیا گیا ہے۔ تشدد پر اکسانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘‘


کھرگون میں میں تشدد بھڑکانے کے لیے کانگریس نے دہلی بی جے پی لیڈر کپل مشرا کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ 11 اپریل کو رام نومی جلوس میں حصہ لینے کے لیے کھرگون میں موجود مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی بھڑک اٹھی۔ کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ نے منگل کے روز کپل مشرا کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’’مشرا جہاں بھی جاتے ہیں تشدد پیدا ہوتا ہے۔‘‘

قابل ذکر بات یہ ہے کہ فرضی تصویر شیئر کرنے کے الزام میں دگ وجے سنگھ کے خلاف کئی ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ لیکن دگ وجے سنگھ اس سے متاثر دکھائی نہیں دیتے۔ انھوں نے ایف آئی آر درج ہونے کے ایک دن بعد کہا کہ وہ ’سچ‘ کے لیے لڑتے رہیں گے۔

مدھیہ پردیش کانگریس ترجمان کے کے مشرا نے کپل مشرا کے دورے کے وقت پر سوال اٹھایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’کپل مشرا کو مدھیہ پردیش میں امن اور ہم آہنگی کی فضا بگاڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لیکن مدھیہ پردیش کانگریس ایسا نہیں ہونے دے گی۔‘‘


بہرحال، مدھیہ پردیش کے کھرگون سے مسلمانوں کی ہجرت پر جب مدھیہ پردیش پولیس سے سوال کیا گیا تو انھوں نے اسے مسترد کر دیا۔ کھرگون میں اپنی ڈیوٹی کر رہے ایک پولیس افسر سے جب پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’کوئی مسلمان یہاں سے نہیں بھاگا۔‘‘ پولیس افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’صرف ان گھروں کو بلڈوزر سے گرایا گیا ہے جو سرکاری زمین پر تعمیر کیے گئے تھے۔ ایس ڈی ایم اور محکمہ محصولات نے مناسب عمل کی پیروی کی ہے۔‘‘ افسر نے تشدد کے سلسلے میں اب تک 30 ایف آئی آر درج ہونے کی بات بھی کہی۔

پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں تصادم کے بارے میں خبریں ملی تھیں۔ احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے ہم نے رام نومی ریلی کے منتظمین سے کہا کہ وہ تنگ گلیوں سے نہ گزریں، لیکن انہوں نے ہماری بات نہیں سنی۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’پتھراؤ اس وقت شروع ہوا جب رام نومی کے منتظمین کی طرف سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے اور مسلم خواتین سے متعلق نازیبا اور قابل اعتراض گانے بجائے گئے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔