دہلی میں کیجریوال ہی ’کنگ‘ سپریم کورٹ کے فیصلے نے وزیر اعلیٰ کو بنایا طاقت ور، ایل جی کے قد میں تخفیف

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر کو حکومت کا مشورہ ماننا پڑے گا۔ نیز پولیس، پبلک آرڈر اور زمین کا اختیار مرکز کے پاس رہے گا۔

ونئے کمار سکسینہ اور اروند کجریوال
ونئے کمار سکسینہ اور اروند کجریوال
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: دہلی میں وزیر اعلیٰ بمقابلہ لیفٹیننٹ گورنر کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے جمعرات کو اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ افسران کی تعیناتی اور تبادلہ کا اختیار دہلی حکومت کو ہونا چاہئے۔ آج تک پر شائع رپورٹ کے مطابق دہلی کا اصل باس ایل جی نہیں بلکہ وزیر اعلی ہے!

دراصل، مرکزی حکومت نے 2021 میں حکومت کی این سی ٹی دہلی ایکٹ میں ترمیم کی تھی۔ اس میں دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو مزید اختیارات فراہم کیے گئے تھے۔ عام آدمی پارٹی نے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جس کا اب فیصلہ سنایا گیا۔


سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق افسران کی تعیناتی اور تبادلے کا حق دہلی حکومت کے پاس ہوگا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ منتخب حکومت کو انتظامی خدمات کا حق ہونا چاہیے۔ اگر منتخب حکومت کے پاس نظام چلانے کا اختیار نہ ہو تو ’ٹرپل چین‘ احتساب پورا نہیں ہوتا۔ عدالت عظمیٰ نے مزید کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر کو حکومت کا مشورہ ماننا پڑے گا۔ نیز پولیس، پبلک آرڈر اور زمین کا اختیار مرکز کے پاس رہے گا۔

خیال رہے کہ دہلی حکومت کی قومی دارالحکومت علاقہ ایکٹ، 1991 دہلی میں قانون ساز اسمبلی اور حکومت کے کام کاج کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرنے کے لیے نافذ ہے۔ 2021 میں مرکزی حکومت نے اس میں ترمیم کی تھی۔ اس میں لیفٹیننٹ گورنر کو اضافی طاقت دی گئی تھی۔ ترمیم کے مطابق منتخب حکومت کے لیے کسی بھی فیصلے کے لیے ایل جی کی رائے لینا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس کو عام آدمی پارٹی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔


عدالت نے 18 جنوری کو اس معاملے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ دہلی حکومت نے دلیل دی تھی کہ مرکز دراصل اپنے اور پارلیمنٹ کے درمیان فرق کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران، سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکز کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا جب دہلی کو دیکھتی ہے تو اس کا مطالب ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کو دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ قومی راجدھانی ہے اس لئے ضروری ہے کہ مرکز کو اس کے نظم و نسق پر خصوصی اختیارات حاصل ہوں اور اہم امور پر کنٹرول ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔