کشمیر: لہلہاتی فصل کے باوجود سیب کسانوں کو کیوں ہو رہا زبردست نقصان، اپنے ہی ہاتھوں فصل تباہ کرنے کو مجبور!

سیب کے کسان باغانوں کے لیے بینکوں سے قرض لیتے ہیں، اور اگر ان کی پیداوار یعنی فصل وقت پر نہیں فروخت ہوگی تو وہ بینک کا قرض آخر کیسے ادا کر پائیں گے۔

تصویر بذریعہ باسط زرگر
تصویر بذریعہ باسط زرگر
user

زنیرہ بخش

تقریباً ایک ہفتہ تک انتظار کرنے کے بعد بالآخر کشمیر کے سیب کسانوں کو سڑک پر اترنا ہی پڑا۔ سیب اور دیگر سامانوں سے لدے ٹرک ہفتہ بھر سے سری نگر-جموں شاہراہ پر کھڑے تھے۔ کسانوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور جیسا کہ سوشل میڈیا میں وائرل ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے، کسان پرزور انداز میں مخالفت درج کرانے کے لیے سیب سے بھری پیٹیاں نذرِ آتش کر رہے ہیں۔

دراصل گزشتہ تقریباً 2 ہفتہ سے سیبوں سے بھرے ٹرک شاہراہ پر کھڑے تھے۔ اس دوران سیب سڑنے لگے اور اپنی آنکھوں کے سامنے پھل خراب ہوتے دیکھ کر کسانوں کی ناراضگی پھوٹ پڑی۔ حالانکہ پیر کی شام ان ٹرکوں کو آگے جانے کی اجازت دے دی گئی، لیکن اس دوران سیب کسانوں کو کتنا نقصان ہوا، اس کا اندازہ فی الحال نہیں لگایا جا سکا ہے۔


جنوبی کشمیر میں شوپیاں کے سیب کسان 55 سالہ میر محمد امین کے باغوں میں ہر سال تقریباً 4000 پیٹی سیب کی پیداوار ہوتی ہے۔ ان کے 5 ایکڑ کے باغ میں اس بار اچھی پیداوار ہوئی ہے اور سیب کا معیار بھی اچھا رہا۔ اچھی قیمت ملنے کی امید میں میر محمد نے اپنی پیداوار کو کئی ٹرکوں میں لادا اور برآمدگی کے لیے اسے جموں کے لیے روانہ کیا۔ لیکن شاہراہ پر پہنچتے ہی ان کے ٹرکوں کو روک دیا گیا۔ یہ ٹرک تقریباً 8 دن تک وہاں پھنسے رہے۔ میر محمد کہتے ہیں کہ ’’ہر ٹرک میں کم از کم 4 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ایک پیٹی سیب پیدا کرنے میں تقریباً 500 روپے کا خرچ آتا ہے، اور ہر ٹرک میں کم از کم 1200 پیٹی سیب تھا۔‘‘ وہ افسردہ دل سے کہتے ہیں ’’بہت بڑا نقصان ہو گیا۔‘‘

دراصل 295 کلومیٹر طویل سری نگر-جموں شاہراہ پر اکثر پہاڑ چٹخنے کے واقعاقت ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے سڑک پر لگاتار تعمیراتی کام ہوتے رہنا۔ اس کے سبب پوری شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد و رفت روک دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فوج کی گاڑیوں کی آمد و رفت سے بھی حالات مزید مشکل ہو جاتے ہیں، کیونکہ فوجی گاڑیوں کو آمد و رفت کو دیگر گاڑیوں کے مقابلے ترجیح دی جاتی ہے، بھلے ہی ان میں ایسا سامان لدا ہو جو زیادہ دیر رکھنے پر خراب ہو سکتا ہے۔


امین بتاتے ہیں ’’ہمارے پھل ملک بھر کی منڈیوں میں تب تک پہنچ جانے چاہئیں جب تک وہ تازہ ہیں، کیونکہ اگر ان کی تازگی ختم ہو جاتی ہے تو کافی نقصان ہو جاتا ہے۔‘‘ امین کا کہنا ہے کہ اس طرح اعلیٰ معیاری سیب بھی سی-گریڈ کا بن جاتا ہے، جس کی اچھی قیمت نہیں ملتی ہے۔

کشمیر وادی فروٹ گرووَرس کم ڈیلرس ایسو سی ایشن کے سربراہ بشیر احمد بشیر بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پھلوں سے لدے ٹرکوں کا شاہراہ پر پھنس جانا کافی نقصان دہ ہوتا ہے، کیونکہ سیب خراب ہو جاتے ہیں اور قیمتیں گر جاتی ہیں۔ بشیر نے بتایا کہ پہلے تو افسر قومی شاہراہ پر یکطرفہ ٹریفک چلانے کی اجازت دے دیتے تھے۔ لیکن جس دن سری نگر سے جموں کے لیے راستہ کھلتا ہے، اس دن فوجی گاڑی آ جاتے ہیں اور پھلوں کے ٹرک وہیں کے وہیں کھڑے رہ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’پھلوں کو بہت دنوں تک ٹرکوں میں نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ ٹرکوں کو پلاسٹک شیٹ سے ڈھکا جاتا ہے۔ اس کے سبب ٹرک کے اندر گرمی بڑھتی ہے جس سے کی اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی سیب سڑ جاتا ہے۔‘‘


پھل پیداوار کرنے والوں کا ایک اور مسئلہ ہے۔ وہ ہے ایرانی سیب۔ بشیر نے بتایا کہ ’’ایرانی سیب سستا ہوتا ہے کیونکہ اسے غیر قانونی طریقے سے درآمد کیا جاتا ہے اور اس پر کوئی ٹیکس نہیں لگا ہوتا۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ ایرانی سیب اور کشمیری سیب میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ اسی لیے لوگ ایرانی سیب کو پسند کرتے ہیں۔

ان مسائل کو لے کر گزشتہ سال ستمبر میں کشمیر کے سیب کسانوں نے مرکزی وزیر برائے زراعت نریندر سنگھ تومر سے ملاقات کی تھی۔ کسانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ سیب بازار میں غیر قانونی طریقے سے آ رہے پھلوں کو روکنا ضروری ہے کیونکہ اس سے کشمیر کی معیشت پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ بشیر نے بتایا کہ کشمیر کی تقریباً 80 فیصد آبادی سیب کی زراعت بالواسطہ یا بلاواسطہ طور سے کرتی ہے۔ ایسے میں اگر یہی حالت رہے تو آبادی کا بڑا حصہ متاثر ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ سب ہمارا پیٹ بھرتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا کراتے ہیں۔‘‘


سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2001 میں جموں و کشمیر میں تقریباً 2.21 لاکھ ہیکٹیر میں سیب کا پروڈکشن ہوتا تھا جو اب بڑھ کر تقریباً 3.33 لاکھ ہیکٹیر ہو گیا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں معاشی معاملوں کے محقق اعجاز ایوب کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی مجموعی جی ڈی پی میں سیب پروڈکشن کی شراکت داری تقریباً 7 فیصد ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’’اس سے سالانہ تقریباً 12000 کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کام میں لگے لوگوں کی تعداد بہت بڑی ہے۔‘‘ حال کے معاشی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے ایوب نے بتایا کہ سیب کے کاروبار میں کم از کم 35 لاکھ کشمیری روزگار سے جڑے ہوئے ہیں۔

ایوب نے اپنے تجزیہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ سیب پیدا کرنے والے کسانوں کے لیے بینکوں سے قرض لیتے ہیں، اور اگر ان کی پیداوار وقت پر نہیں فروخت ہوگی تو وہ بینک کا قرض نہیں ادا کر پائیں گے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پیداوار کو ہوائی راستہ سے منڈیوں میں بھیجنا کافی مہنگا ہے اور ریل ٹرانسپورٹیشن ہے نہیں۔ ایسے میں سڑک کا راستہ ہی واحد طریقہ ہے۔ لیکن سری نگر-جموں شاہراہ اس کاروبار کی سب سے کمزور کڑی کی شکل میں سیب کسانوں کو پریشان کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */