ملازمت کا بحران: 2023 میں اب تک 91 ٹیک کمپنیوں نے 24 ہزار سے زائد لوگوں کو کیا بے روزگار

ملازمین کی چھنٹنی پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ’لے آفس ڈاٹ ایف وائی آئی ڈاٹ کرپٹو لینڈنگ ایکسچینج کرپٹو ڈاٹ کام‘ کے مطابق امیزن، سیلس فورس، کائن بیس جیسی کمپنیوں کے 24151 ملازمین بے روزگار ہو گئے ہیں۔

بے روزگاری، تصویر آئی اے این ایس
بے روزگاری، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

سال 2023 کی شروعات عالمی سطح پر ٹیک ملازمین کے لیے کافی خراب ہوئی ہے۔ 91 کمپنیوں نے اس مہینے کے پہلے 15 دنوں میں ہی 24 ہزار سے زائد ٹیک ملازمین کو نکال دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں تو حالات مزید بدتر ہونے کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

ملازمین کی چھنٹنی پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ’لے آفس ڈاٹ ایف وائی آئی ڈاٹ کرپٹو لینڈنگ ایکسچینج کرپٹو ڈاٹ کام‘ کے مطابق امیزن، سیلس فورس، کائن بیس جیسی کمپنیوں کے 24151 ملازمین بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ان کمپنیوں نے گزشتہ ہفتہ اعلان کیا تھا کہ کمپنی معاشی بحران والے حالات کے درمیان اپنے عالمی ملازمین کی تعداد میں تقریباً 20 فیصد کی کمی کرے گی۔


ہندوستان میں اولا (جس نے 200 ملازمین کو نکال دیا)، وائس آٹومیٹڈ اسٹارٹ اَپ اسکٹ ڈاٹ اے آئی جیسی کمپنیاں جنوری میں سرخیوں میں رہیں جس نے گزشتہ سال دسمبر میں 17 ہزار سے زیادہ ٹیک ملازمین کو باہر کا راستہ دکھایا تھا۔ کورونا وبا کی شروعات کے بعد سے ملازمت کے نقصان پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ کے مطابق میٹا، ٹوئٹر، اوریکل، این ویڈیا، اسنیپ، اوبر، اسپوٹیفائی، انٹیل اور سیلس فورس جیسی کمپنیوں نے 2022 میں 153110 ملازمین کو باہر کا راستہ دکھایا۔

چھنٹنی کی تعداد نومبر میں اپنی خراب سطح پر پہنچ گئی جس میں 51489 ٹیک ملازمین کو اپنی ملازمت گنوانی پڑی۔ گوگل مزید ایک بڑی ٹیک کمپنی ہے جس کے ذریعہ 2023 کی شروعات میں اپنے ملازمین کی تعداد کم کرنے کے لیے سخت قدم اٹھانے کی امید ہے۔ دی انفارمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ’مناسب اثر نہیں ہونے‘ کی وجہ سے تقریباً 6 فیصد گوگل ملازمین کو برخاست کیا جا سکتا ہے۔ 2023 میں گوگل کے 11000 سے زیادہ ملازمین اپنی ملازمت گنوا سکتے ہیں۔ یعنی 2023 ٹیکنالوجی کی دنیا کی تاریخ کا سب سے خراب سال بننے جا رہا ہے۔ سبھی کی نگاہیں اب بڑی ٹیک سہ ماہی نتائج پر مرکوز ہیں جو اس ماہ کے آخر میں سامنے آئیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔